لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس امین الدین نے منی لانڈرنگ کیس میں وزیزیراعظم نوازشریف‘ عمران‘ آصف علی زرداری‘ چودھری برادران سمیت 63 اہم حکومتی و سیاسی شخصیات‘ سابق بیورو کریٹس اور وکلاءکے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق ڈی جی ایف آئی اے سے 29 ستمبر کو رپورٹ طلب کر لی ہے۔ دوسری طرف حدیبیہ پیپر ملز رائے ونڈ فارم ریفرنس میں تمام ملزمان بری کر دیئے گئے ہیں۔
کالے دھن‘ ناجائز کمائی رشوت زنی سے حاصل کی گئی رقم کو بڑے لوگ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی مجرمانہ کارروائی کا کسی کو علم ہو‘ نہ ہی پیسے کی غیرقانونی حیثیت عیاں ہو۔ لوگ اس رقم کو چھپاتے ہیں اور خفیہ طریقے سے ہی اس کی کسی جگہ منتقلی کی جاتی ہے۔ اتنی بڑی رقم اگر بینک کے ذریعے آپ ٹرانسفر کریں گے تو آپ کی چوری پکڑی جائے گی۔ لہٰذا تخریبانہ ذہنیت کے مالک لوگ رقم کی منتقلی کیلئے ہُنڈی کا سہارا لیتے ہیں اور پھر باہر کے ممالک میں جا کر خفیہ اکاﺅنٹ میں اس رقم کو منتقل کیا جاتا ہے۔ سوئس بینکوں میں ہمارے سیاستدانوں کی رقم پڑی ہے۔ موجودہ حکومت نے 200 ارب ڈالر کی واپسی کیلئے کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ حکمرانوں نے اگر سنجیدگی سے اس کا پیچھا کیا تو یہ رقم واپس ملک میں آسکتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے 63 اہم حکومتی و سیاسی شخصیات کے بارے میں منی لانڈنگ کیس میں 29 ستمبر کو رپورٹ طلب کی ہے۔ سیاستدانوں نے برازیل سمیت مختلف ممالک میں اثاثے بنا رکھے ہیں۔ الزام علیہ نے کہا کہ اس کا کھوج ضرور لگانا چاہئے۔ اگر سیاستدانوں نے غیرقانونی اثاثے بنائے ہیں تو اس کا محاسبہ ضرور ہونا چاہئے۔ منی لانڈرنگ میں اہم بات تو یہی ہوتی ہے کہ مجرم کو ایک طرف رقم سے محروم کریں اور دوسرا اسے سزا دی جائے‘ لیکن اس کیس میں ٹھوس شواہد کی بنا پر کارروائی شروع کی جائے۔ کہیں اس کیس کے ساتھ بھی حدیبیہ پیپر ملز رائے ونڈ فارم ریفرنسز جیسا نہیں ہونا چاہئے کہ سالہاسال کیس چلنے کے بعد عدم ثبوت کی بنا پر تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔ احتساب عدالت نے کہا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ریفرنسز سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے۔ ان کیس پر جو خرچ آیا‘ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ منی لانڈرنگ کیسز میں بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ الزام علیہ اگر ثبوت فراہم نہ کر سکے تو پھر ان کیسز پر آنیوالے خرچے کا ذمہ دار وہی ہونا چاہئے تاکہ خزانے پر اس کا بوجھ نہ پڑے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024