بھارتی فوج کی ورکنگ باؤنڈری کے چاردا‘ باجرہ گڑھی‘ ہرپال، سچیت گڑھ اور چپراڑ سیکٹروں پر دوسرے روز بھی گولہ باری اور فائرنگ جاری رہی جس سے مزید پانچ شہری شہید اور 10 زخمی ہوئے۔ متعدد دیہات کے مکانوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا اور کئی مویشی ہلاک ہو گئے۔ پاک فوج نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ بی ایس ایف کے دو اہلکار ہلاک اور 4 زخمی ہوئے۔ بھارتی ہائی کمشنر کو ہفتہ میں تیسری بار دفتر خارجہ میں طلب کر کے انڈین فوجوں کی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری پر شدید احتجاج کیا گیا۔ دوسری طرف بھارت نے عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے نئی دہلی میں متعین پاکستان کے ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ کے نام پر جھوٹ کا پلندہ تھما دیا۔ دریں اثنا بھارت میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر میں انتہا پسند ہندوؤں نے چرچ جلا دیا۔
کوئی دن خالی نہیں جاتا جس روز بھارت نے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری نہ کی ہو۔ اس کا یہ اقدام 2003ء کے سیزفائر معاہدے سمیت عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت کی سرحدی خلاف ورزیوں میں درجنوں بے گناہ شہری شہید‘ سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ مویشیوں کی ہلاکت‘ مکانوں اور فصلوں کا نقصان اسکے علاوہ ہے۔ بھارت کی مسلسل جارحیت کے نتیجے میں سرحد کے قریب واقع دیہات خالی ہو چکے ہیں‘ جن کے مکین اندرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ جن کیلئے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے خصوصی ریلیف کیمپ قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بھارت کے یہ عزائم اور جنونیت بلاشبہ علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں۔ اقوام متحدہ اور علاقے کے دیگر ملکوں کو بھارت کی ان کارروائیوں کا نوٹس لینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں وزارت خارجہ کو بھارت کے جارحانہ عزائم اور اقلیتوں پر مظالم کے بارے میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے سفارت کاری کو مؤثر اور فعال بنانا چاہئے۔ بھارت دراصل پاکستان کے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ خدانخواستہ کسی وقت دباؤ میں آ کر پاک فوج نے جواب دیا تو سرحدی جھڑپ بڑھ کر وسیع جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اُدھر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ عالمی برادری نے سرحدوں پر بھارتی جارحیت اور اقلیتوں پر مظالم سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ گزشتہ روز انتہا پسند ہندوؤں نے مقبوضہ کشمیر میں چرچ جلا دیا اور زیادتی کے بعد ایک بچی کو قتل کر دیا۔ جس پر ریاستی اسمبلی میں سخت احتجاج کیا گیا۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024