آج کاکول پریڈ میں کیڈٹس کے اُٹھائے گئے حلف کی پاسداری کا عہد بھی کیا جائے…قائد کے پاکستان کو اقبال کے تصور پاکستان سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے
شاعرِ مشرق، مفکرِ اسلام اور مصورِ پاکستان علامہ اقبال کا 76واں یومِ وفات آج انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر اسلامیانِ پاکستان اور کشمیری عوام کے علاوہ بھارت، ایران، افغانستان، ترکی،برطانیہ، جرمنی اور دوسرے ممالک میں مقیم اقبال کے عقیدت مند انہیں مختلف تقاریب کے ذریعے ہدیۂ عقیدت و محبت پیش کریں گے اور مسلم اُمہ کے اتحاد و یگانگت کے لئے اقبال کی سوچ پر عمل پیرا ہونے کے عزم کا اعادہ کریں گے۔ عقیدت مندانِ اقبال آج لاہور میں مزارِ اقبال پر حاضری دے کر ان کی روح کو ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کریں گے اور ملک کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لئے خصوصی دعائیں مانگیں گے۔ اقبال کے یومِ وفات پر آج مزارِ اقبال پر گارڈ کی تبدیلی کی پُروقار تقریب بھی منعقد ہو گی جبکہ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان میں آج صبح ساڑھے دس بجے نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیر اہتمام یومِ اقبال کی ایک خصوصی تقریب بھی منعقد ہو گی جس میں علامہ اقبال کی بہو بیگم ناصرہ جاوید اقبال، پوتے ولید اقبال اور دوسرے مقررین اقبال کی شاعری کی مختلف جہتوں اور ان کی ملی اور قومی خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال برصغیر کی ان جلیل القدر ہستیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس خطے کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کیلئے جداگانہ قومیت کا احساس اُجاگر کیا اور الگ وطن کا تصور دیا۔ انہوں نے انگریز اور ہندو کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے مسلمانانِ ہند کی کسمپرسی اور کم مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ان کیلئے ایک الگ خطۂ ارضی کی ضرورت محسوس کی اور صرف اس پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا پورا نقشہ پیش کر دیا اور پھر ایک دردمند مسلم لیگی قائد کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح کو جو انگریز اور ہندو کی غلامی میں جکڑے مسلمانوں کی حالتِ زار سے مایوس ہو کر مستقل طور پر لندن کوچ کر گئے تھے‘ خط لکھ کر واپس آنے اور اسلامیانِ ہند اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کیلئے قائل کیا‘ چنانچہ قائداعظم نے ہندوستان واپس آکر حضرت علامہ کی معیت اور گائیڈ لائن میں مسلمانانِ برصغیر کو انگریز کی سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ متعصب ہندو بنیا کی اقتصادی غلامی سے بھی نجات دلانے کی جدوجہد کا آغاز کیا‘ تاہم حضرت علامہ کی عمر عزیز نے وفا نہ کی اور وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر برصغیر کے مسلمانوں کی آزاد اور خودمختار مملکت کیلئے 23 مارچ 1940ء کو منظور ہونیوالی قرارداد لاہور سے دو سال پہلے ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے جن کے بعد قائداعظم نے اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد میں پیش کئے گئے تصورِ پاکستان کو سات سال کے مختصر عرصے میں اپنی پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعہ اسلامیانِ ہند کی معاونت سے حقیقت کے قالب میں ڈھال دیا۔ اس تناظر میں علامہ اقبال لیڈر شناس بھی تھے‘ جنہیں مکمل ادراک ہو چکا تھا کہ محمد علی جناح کی زیر قیادت برصغیر کے مسلمانوں کی منظم تحریک سے ہی ان کیلئے الگ وطن کے حصول کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جبکہ اقبال بذاتِ خود برصغیر کے مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر تھے جو اپنی قومی اور ملی شاعری کے ذریعہ بھی انکے جذبات متحرک رکھتے تھے اس لئے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کو اقبال اور قائداعظم کی قیادت میسر نہ ہوتی تو ان کیلئے ایک الگ مملکت کی کبھی سوچ پیدا ہوتی‘ نہ اسکا حصول ممکن ہوتا۔ قائداعظم خود بھی علامہ اقبال کی قائدانہ صلاحیتوں کے قائل تھے‘ جنہوں نے انکے انتقال پر تعزیتی بیان میں اعتراف کیا کہ ان کیلئے اقبال ایک رہنماء بھی تھے‘ دوست بھی اور فلسفی بھی تھے‘ جو کسی ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے عزم میں متزلزل نہ ہوئے اور چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔
بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے تو اپنی بے لوث‘ بے پایاں اور اتحادِ ملّی کے جذبے سے معمور جدوجہد کے نتیجہ میں اسلامیانِ برصغیر کیلئے ایک الگ ارضِ وطن کا خواب حقیقت بنا دیا مگر بدقسمتی سے انکی جانشینی کے دعویدار مسلم لیگی قائدین سے نہ آزاد و خودمختار ملک اور مملکت کو سنبھالا جا سکا اور نہ ان سے اتحاد و ملت کی کوئی تدبیر بن پائی چنانچہ جس مسلم لیگ اور اسکے قائدین کو ملک خداداد کی ترقی و استحکام کی ضمانت بننا چاہیے تھا‘ انکی عاقبت نااندیشیوں سے آزاد اور خود مختار مملکت میں بھی مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر ہو پائی‘ نہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے وہ مقاصد پورے ہوئے جن کی تکمیل کیلئے مسلمانوں کے الگ خطہ کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد اگر مسلم لیگی قائدین فہم و تدبر سے کام لیتے‘ پارٹی کے جھنڈے تلے یکسو اور متحد رہتے اور بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کے وضع کردہ اصولوں کو حرزِ جاں بنائے رکھتے تو اسلامیانِ پاکستان کیلئے اپنی خوشی‘ خوشحالی اور جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے تصور والی طمانیت کا سفر کبھی کھوٹا نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے طالع آزما جرنیلوں نے جمہوریت کا تصور پختہ ہونے دیا اور نہ ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو پنپنے دیا جبکہ مسلم لیگی قیادتوں نے بھی حصوں بخروں میں منقسم ہو کر خالص مسلم لیگی حکومت کی تشکیل بھی ممکن نہ ہونے دی اور دو قومی نظریے پر یقین نہ رکھنے والے عناصر کو بھی کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔
آج کے پاکستان کا قائد و اقبال کے تصورات و فرمودات کی روشنی میں قیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہمیں سوائے مایوسی کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر آج پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کی حکمرانی میں عوام الناس راندۂ درگاہ ہیں اور اقتصادی بدحالی کی بنیاد پر انکے روٹی روزگار کے مسائل اسی طرح گھمبیر ہیں جو متحدہ ہندوستان میں انگریز اور ہندو کی جانب سے مسلمان اقلیتوں پر مسلط کی گئی اقتصادی بدحالی کے باعث مسلمانوں کیلئے الگ خطۂ ارضی کے حصول کی راہ ہموار کرنے پر منتج ہوئے تھے‘ تو مسلم لیگی حکومتی اکابرین کو سوچنا چاہیے کہ آیا انہوں نے مسلمانوں کیلئے الگ خطۂ ارضی کا بانیان پاکستان کا سارا سفر کھوٹا تو نہیں کر دیا۔ آج قائد و اقبال کے تصورات کے مطابق جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل تو کجا‘ انکے حاصل کردہ پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور بقاء بھی سخت خطرے میں ہے جسے پاکستان دشمن بیرونی قوتوں ہی نہیں‘ ملک کے اندر موجود ان گمراہ عناصر سے بھی سخت خطرہ لاحق ہے جو دہشت گردی کی بنیاد پر اسلامی نظام کی آڑ میں اپنی من مرضی کا ایسا نظام مسلط کرنے کا ایجنڈہ رکھتے ہیں جو قیام پاکستان کی جدوجہد کا مطمع نظر ہی نہیں تھا۔ اگر امورِ حکومت و مملکت چلانے کی ذمہ داری ان ہاتھوں میں ہوتی جو تشکیلِ وطن کے بعد تعمیر و استحکامِ وطن کے تقاضے اقبال کی سوچ، فلسفے اور قائداعظم کے اٹل عزم اور مستحکم و خود مختار ملک کے لئے ان کے وضع کردہ اصولوں کے عین مطابق نبھانے کے جذبے سے سرشار ہوتے تو آج ریاستی اتھارٹی بندوق، بارود اور خودکش جیکٹوں کے زور پر اپنا من مانا ایجنڈہ مسلط کرنے والے چند مخصوص عناصر کے آگے سرنڈر ہوتی نظر آتی نہ کسی کو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے دورِ حکومت میں نظریہ پاکستان اور بانیٔ پاکستان قائد و اقبال کو متنازعہ بنا کر تحریکِ پاکستان کا اپنی مرضی کا مفہوم نکالنے کی جرأت ہوتی۔ آج ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قیادتوں کی تعمیر و استحکامِ پاکستان کے لئے قائد و اقبال کی سوچ سے دوری کے نتیجہ میں ہی جمہوریتوں کے خلاف ماورائے آئین اقدامات کی حامل جرنیلی آمریتوں کا راستہ پھر سے ہموار کرنے کی سازشوں کا عمل دخل نظر آ رہا ہے جبکہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گذشتہ سال یومِ آزادی کی تقریب اور کاکول اکیڈمی کی سالانہ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے باور کرا دیا تھا کہ قائد و اقبال کی متعین کردہ راہوں پر چل کر ہی پاکستان کی ترقی اور سلامتی کے تقاضے نبھائے جا سکتے ہیں۔
آج بدقسمتی سے مشرف غداری کیس کے تناظر میں جمہوریت اور جمہوری سیاست کے خلاف اُڑائی جانے والی گرد سے قائد و اقبال کے پاکستان کا تصور اور نقشہ پھر سے بگاڑنے کی سازشیں فروغ پاتی نظر آ رہی ہیں۔ ہمیں آج یومِ اقبال پر اس سوچ کو بطور قوم شکست دینے کا عزم باندھنا ہو گا۔ اس سلسلہ میں گذشتہ روز وزیراعظم نواز شریف کے کاکول میں کیڈٹس کی پریڈ سے خطاب سے جمہوریت کے خلاف سازشی تھیوریاں پروان چڑھانے والے عناصر کے عزائم پر ضرور زد پڑی ہے۔ اس تقریب میں نوجوان کیڈٹس سے جو حلف لیا گیا اس پر کاربند رہ کر ہی قائد و اقبال کے پاکستان کو مستحکم اور دنیا میں سرخرو کیا جا سکتا ہے۔ اس حلف کے تحت اگر آج کے نوجوان کیڈٹس نے عہد کیا ہے کہ وہ آئین کی حمایت کریں گے اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہوں گے تو آرمی چیف اور دوسرے اہم مناصب تک پہنچنے والے ہر کیڈٹ نے یہی حلف اٹھایا ہوتا ہے۔ اگر ماضی میں بھی اس حلف کی پاسداری ہوتی رہتی تو اس وطنِ عزیز کو جرنیلی آمریتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کا کبھی سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اگر آج بھی کچھ عناصر اس حلف کے برعکس عسکری قیادتوں کے کسی کردار کی خواہش رکھتے ہیں تو وہ درحقیقت نظریہ پاکستان کی بنیاد پر قائم ہونے والے قائد و اقبال کے پاکستان کا نقشہ بگاڑنے کے درپے ہیں۔ آج یومِ اقبال پر پاکستان کے استحکام و بقاء کی دعائوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اس سوچ کو شکست دینے کا بھی عزم باندھنا ہو گا جو ایٹمی پاکستان کو اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی منزل سے ہٹانے کے درپے ہیں۔