ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے معاملات پر سول و عسکری قیادتیں یکسو ہوں تو کوئی ہمارے کردار پر انگلی نہ اٹھائے
وزیراعظم شاہد خاقان کی پہلے گھر کی صفائی بارے وزیرخارجہ کے موقف کی تائید اور آرمی چیف کی دفاعی بجٹ میں کمی پر تشویش
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نیویارک روانگی سے قبل گزشتہ روز لندن میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا پہلے اپنے گھر کی صفائی سے متعلق بیان درست ہے اور وہ خود بھی اس موقف کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی نے ثابت کردیا ہے کہ نوازشریف ہی عوام کے رہنماءہیں اور وہی ملک کی ترقی کے ضامن ہیں۔ وزیراعظم عباسی 21 ستمبر کو یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خطاب کرینگے جس کے ذریعے وہ مسئلہ کشمیر‘ روہنگیا مسلمانوں کے بحران اور افغانستان کی صورتحال پر عالمی قائدین کی توجہ مرکوز کرائیں گے۔ نیویارک میں انکی افغان صدر اشرف غنی‘ ترک صدر رجب طیب اردوان‘ برطانوی وزیراعظم تھریسامے‘ یواین سیکرٹری جنرل نتونیوگوتریز اور امریکی نائب صدر مائیک پنس سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ وزیراعظم ہاﺅس کے ذرائع کے مطابق یواین جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیراعظم انسداد دہشت گردی کیلئے پاکستان کی بے مثال کوششوں‘ قربانیوں‘ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم‘ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کے تعاون‘ ایٹمی عدم پھیلاﺅ کیلئے پاکستان کے عزم سمیت عالمی و علاقائی اہمیت کے امور کا احاطہ کرینگے اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کیلئے بھارت کی سرپرستی اور اس ضمن میں کلبھوشن یادیو سمیت بھارتی تخریب کاروں کے نیٹ ورک کی گرفتاری کی تفصیلات سے عالمی سربراہان کو آگاہ کرینگے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خطاب کیلئے اس وقت نیویارک گئے ہیں جب پاکستان سے دہشت گردی کے تدارک بالخصوص انتہاءپسند کالعدم تنظیموں کیخلاف سخت کارروائی کیلئے عالمی تقاضے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجیوں سے نشری خطاب کے دوران پاکستان اور افغانستان سے متعلق نئی امریکی حکمت عملی کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان سے دھمکی آمیز لہجے میں حقانی نیٹ ورک اور دوسری کالعدم تنظیموں کے قلع قمع کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا تقاضا کیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی باور کرایا کہ پاکستان کے اقدام نہ اٹھانے کی صورت میں اسکی سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی امداد روک لی جائیگی‘ دہشت گردوں کا پاکستان کے اندر تعاقب کیا جائیگا اور انکے ٹھکانوں پر ڈرون حملے بڑھائیں جائینگے۔ اسی طرح دو ہفتے قبل چین کے دارالحکومت بیجنگ میں منعقد ہونیوالی پانچ ملکی برکس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی کالعدم انتہا پسند تنظیموں کیخلاف سخت کارروائی کا تقاضا کیا گیا اور بالخصوص چینی قیادت کی جانب سے دہشت گردی کی جنگ میں کالعدم تنظیموں کیخلاف اٹھائے جانیوالے اقدامات کو ناکافی قرار دے کر ان پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ بھارت اور افغانستان کی جانب سے تو پہلے ہی پاکستان سے امریکی لب و لہجے میں ڈومور کے تقاضے جاری ہیں۔
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے ٹھوس اور مو¿ثر کردار اور اسکی بے مثال قربانیوں کے باوجود اسکے کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اور ڈومور کے تقاضے کرتے ہوئے امریکہ ہی نہیں‘ ہمارے قابل بھروسہ دوست ملک چین کی جانب سے بھی دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے ہماری اب تک کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم اب نیویارک میں عالمی قیادتوں کے روبرو ہیں تو یقیناً وہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے کردار کے حوالے سے استفسارات کی زد میں ہونگے اور انہیں اس معاملہ میں بہرصورت عالمی قیادتوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔ ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ چہ جائیکہ ہم جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی فوجوں کے مظالم کی جانب عالمی قیادتوں کی توجہ مرکوز کرائیں اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی جارحانہ عزائم پر اسے شٹ اپ کال دینے کا عالمی قیادتوں سے تقاضا کریں‘ ہم خود بعض دہشت گرد تنظیموں کو تحفظ دینے کے الزامات کی زد میں ہیں اور یہ الزامات امریکہ اور ہمارے روایتی دشمن بھارت کی جانب سے ہی نہیں‘ ہمارے مخلص دوست چین کی جانب سے بھی عائد کئے جارہے ہیں۔ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف برکس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ پر پاکستان کے موقف کی وضاحت کیلئے بیجنگ گئے تو انہیں میڈیا کے روبرو اس امر کا اعتراف کرنا پڑا کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کی صفائی کی ضرورت ہے۔ بعدازاں انکے اس موقف کی وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی تائید کی جنہوں نے گزشتہ روز بھی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ جب تک ہمارا گھر ٹھیک نہیں ہوگا‘ ہمارے مسائل حل نہیں ہو پائیں گے۔ اب نیویارک میں عالمی قیادتوں کے روبرو موجود ہمارے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی اس امر کا اعتراف کرنا پڑا ہے کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کی صفائی کرنا ہوگی تو اس پر مخالفانہ سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کے بجائے سنجیدگی سے غوروفکر کرنا ہوگا کہ ہمارے بارے میں عالمی فورموں اور عالمی قیادتوں کے دلوں میں ایسے شکوک و شبہات کیوں پیدا ہوئے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے حالیہ بیرونی دورے کے دوران مختلف ممالک کی سول اور عسکری قیادتوں کو دہشت گردوں کیخلاف اپریشن راہ راست‘ راہ نجات‘ ضرب عضب‘ ردالفساد اور اپریشن خیبر4 میں حاصل ہونیوالی کامیابیوں اور قوم کی جانب سے دی گئی قربانیوں سے بجا طور پر آگاہ کیا ہے اور انہیں پاکستان کے کردار پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے اور بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان سے تقاضے اور انکی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے امریکہ سے یہ بجا تقاضا بھی کیا ہے کہ اب خطے میں قیام امن کیلئے ”ڈومور“ کی اسکی باری ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز سینٹ اور قومی اسمبلی کی مجالس قائمہ برائے دفاع کے مشترکہ وفد سے گفتگو کے دوران بھی امریکہ سے ڈرون حملے بند کرنے کا تقاضا کیا اور کہا کہ سول اور فوجی قیادت انتہاءپسندی کیخلاف متحد ہے تاہم انہوں نے یہ کہہ کر سویلینز کو ہی موردالزام ٹھہرانے کی کوشش کی کہ مہنگائی کی وجہ سے دفاعی بجٹ کم ہورہا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بیرونی جارحیت کی صورت میں دفاع وطن کیلئے ہر ممکنہ اقدام اٹھانے کی افواج پاکستان کی بنیادی آئینی ذمہ داری ہے جس کیلئے انہیں ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحہ سے لیس کرنے کی خاطر ہر سال دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنا پڑتا ہے جس کیلئے عوام کی ترقی و فلاح کیلئے مختص بجٹ میں کٹوتی کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح ملک کے اندر دہشت گردی کے درپیش چیلنج سے عہدہ برا¿ ہونے کی بھی عسکری اداروں کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے قوم کا سر فخر سے بلند ہے کہ ملک کی سالمیت کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں اور خطرات سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے عساکر پاکستان نے بے مثال کردار ادا کیا ہے اور دہشت گردی کی جنگ میں اپنے دس ہزار سے زیادہ جوانوں اور افسران کی شہادتوں اور فوجی تنصیبات کے بھی دہشت گردی کا نشانہ بننے سے بے پناہ نقصانات بھی اٹھائے ہیں تاہم عساکر پاکستان کے اس جرا¿ت مندانہ کردار کے باوصف عالمی قیادتوں کو انکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے ان کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے سرکردہ لیڈران کی ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کی میٹنگوں میں شمولیت کی اطلاعات ملتی ہیں تو انہیں دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے کردار پر انگلیاں اٹھانے کا موقع ملتا ہے جس پر ہماری سول قیادتوں کو دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کا دفاع کرتے ہوئے دقت محسوس ہوتی ہے اور انہیں اپنے گھر میں موجود خرابی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔
بلاشبہ ہماری سول قیادتوں کو گھر میں موجود خرابیوں کا پبلک فورموں پر اعتراف کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ہمارا مکار دشمن بھارت تو ہماری کمزوریاں تلاش کرنے کے موقع کی تاک میں بیٹھا ہے جو ہمارے قائدین کے ایسے بیانات کو اچھال کر دنیا میں ہمیں تنہا کرنے کی سازشوں کو مزید پروان چڑھاتا ہے۔ اسی طرح ہماری عسکری قیادتوں کو بھی ملک کے دفاعی معاملات بالخصوص دفاعی بجٹ پر پبلک فورموں پر ایسی باتیں سامنے لانے سے گریز کرنا چاہیے جس سے دفاع وطن کی تیاریوں کے حوالے سے ہمارے کسی کمزور پہلو کی نشاندہی ہوتی اور سول انتظامیہ کی اتھارٹی پر کسی قسم کی زد پڑتی ہو۔ اس تناظر میں آرمی چیف کا ایک پبلک فورم پر یہ کہنا انکی پیشہ ورانہ آئینی ذمہ داریوں کے ہی متضاد نہیں بلکہ بے محل بھی نظر آتا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے دفاعی بجٹ کم ہورہا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے پیدا کردہ حالات ہی مہنگائی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں‘ جب دہشت گردوں کی پیدا کردہ خوف و ہراس کی فضا میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ جائے‘ صنعتوں کا پہیہ جامد ہو جائے اور کاروباری اور تجارتی مراکز میں کام ٹھپ ہوجائے تو اس سے پیدا ہونیوالی اشیاءکی کمیابی مہنگائی میں اضافے پر ہی منتج ہوگی۔ اس مہنگائی کا اثر صرف دفاعی بجٹ پر نہیں‘ ملک و قوم کی فلاح و ترقی کیلئے وضع کئے گئے میزانیوں پر بھی منفی انداز میں ہی مرتب ہوتا ہے۔ دفاعی بجٹ میں ہر سال اضافہ کرنا یقیناً ہماری مجبوری ہے جبکہ اسکے مقابلے میں تعلیم‘ صحت اور عوام کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے ذمہ دار دوسرے شعبوں کے بجٹ میں ہونیوالا اضافہ دفاعی بجٹ کے اضافے کا عشرِعشیر بھی نہیں ہوتا۔ اس وقت بھی ہمارا دفاعی بجٹ تعلیم اور صحت کے مجموعی بجٹ سے تقریباً چھ گنا زیادہ ہے اور اگر مہنگائی سے دفاعی بجٹ متاثر ہورہا ہے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحت اور تعلیم کے بجٹ میں جو پہلے ہی دفاعی بجٹ کے حجم سے چھ گنا کم ہے‘ مہنگائی کے کتنے برے اثرات مرتب ہوتے ہونگے۔ اگر مہنگائی کے محرکات میں ملک کی امن و امان کی مخدوش صورتحال کا زیادہ عمل دخل ہے‘ جسے بہتر بنانے کی ہمارے عسکری اداروں کی ذمہ داری ہے تو دفاعی بجٹ میں اضافے کے ثمرات قوم تک کیسے پہنچ پائیں گے اور اگر دہشت گردوں کی سرکوبی کے معاملات میں عالمی ادارے اور قیادتیں بھی ہمارے کردار پر مطمئن نہ ہوں تو جہاں پر خرابی موجود ہے‘ کیا اسے دور کرنے کا تردد نہیں کرنا چاہیے؟
ہمارے قومی ریاستی آئینی ادارے اگر اپنے اپنے متعینہ آئینی دائرہ کار میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوں تو نہ اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے کسی قسم کی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اور نہ بیرون ملک سے ہم پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع ملے۔ بہتر یہی ہے کہ ہماری سول اور عسکری قیادتیں ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے معاملات پر یکجہت و یکسو ہو جائیں ورنہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے جان توڑ کردار کے باوجود بدقسمتی ہمارے تعاقب میں رہے گی۔