بھارت کو پاکستان کی نگرانی سونپنے کی امریکی خواہش اور امریکی نیوی کے پاکستان میں اپریشن کیلئے تیار رہنے کا نیویارک ٹائمز کا دعویٰ
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان پر گہری نظر رکھنے اور اسکے دہشت گردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ ہونے کے حوالے سے امریکہ کو معاونت فراہم کر سکتا ہے۔ ایک غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی سفیر نے واشنگٹن میں امریکہ بھارت دوستی کونسل کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اور جنوبی ایشیاء میں امریکہ کا مفاد وہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ ہے جو امریکی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جوہری ہتھیار بھی دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگنے کے خواہاں ہیں۔ اس تناظر میں ہم اہم اہداف کے حصول کیلئے اپنی قومی طاقت کے تمام اقتصادی‘ سفارتی اور عسکری عناصر کا بھرپور استعمال کرینگے۔ انکے بقول صدر ٹرمپ نے پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے دفاع کے حوالے سے سخت پالیسی اپنائی ہے۔ پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا زبردست اتحادی ہے اور ہم اسکی قدر کرتے ہیں تاہم دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو محفوظ افغانستان کیلئے بھارت کی مدد درکار ہے کیونکہ نئی دہلی نہ صرف کابل کی تعمیرنو میں اہم کردار ادا کررہا ہے بلکہ یہ ملک ہمیں پاکستان پر گہری نظر رکھنے اور دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمہ میں بھی بھرپور معاونت فراہم کر سکتا ہے۔ انکے بقول بھارت کے تعاون سے ہی افغانستان کی خوشحالی‘ استحکام اور دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے بھی اس امر کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ بھارت کو مزید بہتر دفاعی صلاحیتوں کا حامل دیکھنا چاہتا ہے‘ انکے بقول دہشت گردی کیخلاف امریکہ بھارت ایک ساتھ ہیں۔
ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف سے ٹیلی فونک بات چیت کے دوران پاکستان کیلئے جن نیک توقعات کا اظہار کیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنے کی بھی خواہش ظاہرکی جس کا بعدازاں امریکی نائب صدر پنس نے اعادہ کیا‘ اس سے پاکستان امریکہ تعلقات خوشگوار ماحول میں مثبت دھارے پر استوار ہوتے نظر آئے اور یوں محسوس ہوا جیسے ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے پاکستان اور مسلمانوں پر ملبہ ڈالنے والے اپنے انتخابی منشور اور بیانات کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تاہم صدر کے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں ہی مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے پہلے سے بھی زیادہ تلخ لہجہ اختیار کرلیا اور ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح ایجاد کرکے انہوں نے ہر قسم کی دہشت گردی کا ناطہ دین اسلام کے ساتھ جوڑنے کی اپنی سوچی سمجھی حکمت عملی کا اظہار کردیا۔ اسکے بعد کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ٹرمپ انتظامیہ اور خود ٹرمپ کی جانب سے پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کرتے ہوئے اسے مطعون ٹھہرانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ٹرمپ نے جنوبی ایشیاء کیلئے امریکہ کی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے تو پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے موردالزام ٹھہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور پاکستان سے حقانی گروپ اور دوسری کالعدم تنظیموں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں کیخلاف سخت اپریشن کا ہدایت نامہ جاری کرکے یہ بھی باور کرادیا کہ بصورت دیگر پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ملنے والی فوجی اور سول گرانٹ میں کمی یا اسکے مکمل خاتمہ‘ فرنٹ لائن اتحادی کے سٹیٹس کی واپسی اور ڈرون حملے بڑھانے جیسے سخت اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہی لب و لہجہ بعدازاں امریکی نائب صدر‘ وزیر خارجہ‘ وزیر دفاع اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے بھی اختیار کرلیا جبکہ بھارت کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کی گاڑھی چھننے لگی۔ انتہاء پسند بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکہ کا دورہ کیا تو انکے ساتھ بیٹھ کر صدر ٹرمپ نے پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کئے اور ساتھ ہی یہ ہدایت نامہ بھی جاری کیا کہ وہ اپنی سرزمین بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔ یہی موقف بعدازاں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اپنے دورۂ بھارت کے موقع پر اختیار کیا جبکہ وزیر خارجہ پاکستان خواجہ محمد آصف کے دورہ امریکہ کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرس بھی افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے بھارت کے کردار کا حوالہ دے کر پاکستان سے ڈومور کے تقاضے میں پیچھے نہ رہے۔
اس صورتحال میں پاکستان امریکہ تعلقات انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوتے نظر آئے اور پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کو یہ باور کرانے پر مجبور ہوگیا کہ اب ہمارے لئے ’’ڈومور‘‘ نہیں ہوگا بلکہ ہماری جانب سے ’’نومور‘‘ ہوگا۔ پاکستان کے اندر کارروائی کے ٹرمپ کے اعلان اور ڈرون حملے بڑھانے کی دھمکی محض زبانی جمع خرچ والی نہیں تھی بلکہ پاکستان کی سرزمین پر یکے بعد دیگرے دو ڈرون حملے کرکے اس دھمکی پر عملدرآمد بھی شروع کردیا گیا جبکہ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اس وقت واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامیہ کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی پر ہم امریکہ کے ساتھ مشترکہ اپریشن کیلئے بھی تیار ہیں‘ اسکے باوجود واشنگٹن انتظامیہ نے پاکستان کے بارے میں جارحانہ طرزعمل برقرار رکھا اور امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے وزیر خارجہ پاکستان کی جانب سے پاکستان کے دورے کی دعوت قبول کرتے ہوئے بھی یہی بیان دیا کہ پاکستان کو حقانی گروپ اور دوسری کالعدم تنظیموں کے ٹھکانوں پر بہرصورت سخت ایکشن لینا ہوگا‘ بصورت دیگر امریکہ خود ایکشن لے گا۔ اسکے جواب میں دفتر خارجہ پاکستان نے باور کرایا کہ حقانی نیٹ ورک کے جتنے بھی سینئر کمانڈر مارے گئے وہ سب افغانستان میں موجود تھے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں امریکہ پاکستان انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر پاک افغان سرحد پر افغانستان کے اندر کئے گئے اپریشن میں بھی جماعت الاحرار کے سربراہ خالد عمر خراسانی سمیت کالعدم تنظیموں کے متعدد عہدیداران اور کمانڈرز افغانستان کے اندر ہی ہلاک ہوئے جو اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے پاکستان نہیں‘ افغانستان کے اندر ہیں جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں امن کی بحالی کی ذمہ داری بھارت کو سونپ دی ہے جو پہلے ہی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی منصوبہ بندی کے تحت افغان سرزمین استعمال کررہا ہے۔
اس تناظر میں تو بھارت کو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے جبکہ اب اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے یہ انکشاف بھی کردیا ہے کہ بھارت درحقیقت دہشت گردوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کی نگرانی کیلئے امریکہ کی معاونت کررہا ہے۔ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ بھارت گٹھ جوڑ پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کیخلاف ہی ہوا ہے جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان سے اچھے تعلقات کی خواہش پر مبنی بیانات منافقت کے لبادے میں لپٹے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کرم ایجنسی میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے سخت اپریشن کے باعث ایک امریکی خاتون اور اسکے کینیڈین شوہر کی اپنے تین بچوں سمیت طالبان کی قید سے بازیابی ہوئی تو امریکی صدر ٹرمپ اور واشنگٹن انتظامیہ نے اس اپریشن کا خیرمقدم کیا اور امریکی خاتون کو اسکے شوہر اور بچوں سمیت بازیاب کرانے پر پاکستان سے اظہار تشکر بھی کیا گیاجبکہ ٹرمپ نے اس اپریشن کو پاکستان امریکہ حقیقی تعلقات کی شروعات قرار دیا جس سے پاکستان امریکہ تعلقات میں امریکی پالیسیوں کے باعث پیدا ہونیوالی کشیدگی اور سردمہری کی فضا میں خوشگوار تبدیلی کا عندیہ ملا۔ بازیاب ہونیوالے جوڑے نے بھی کینیڈا پہنچنے کے بعد اپنی بازیابی پر پاکستان اور افواج پاکستان سے اظہار تشکر کیا اور توقع یہی تھی کہ اس اپریشن کی بنیاد پر پاکستان امریکہ تعلقات دوبارہ ٹریک پر آجائینگے مگر ٹرمپ انتظامیہ تو متذکرہ کامیاب اپریشن کا کریڈٹ بھی پاکستان کو دینے پر آمادہ نظر نہیں آتی اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے اس دعوے نے پاکستان کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی اصل حکمت عملی بے نقاب کردی ہے کہ پاک فوج امریکی خاتون اور اسکے شوہر کو اپریشن کے ذریعہ بازیاب نہ کراتی تو امریکی نیوی پاکستان کے اندر اپریشن کیلئے تیار بیٹھی تھی‘ گویا پاکستان کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ اس نے طالبان کی قید سے امریکی خاتون کو اسکے شوہر اور بچوں سمیت بازیاب کراکے امریکہ پر کوئی احسان نہیں کیا۔ ٹرمپ اس اپریشن کے حوالے سے پہلے ہی یہ باور کراچکے ہیں کہ پاکستان نے اس اپریشن کے ذریعہ ہمارے ڈومور کے تقاضوں پر عملدرآمد کا آغاز کردیا ہے۔
پاکستان کے ساتھ اس سے بڑی طوطا چشمی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس اپریشن کے ردعمل میں کرم ایجنسی میں ہونیوالی سرنگ دھماکے کی دہشت گردی میں ایک کیپٹن سمیت پاکستان کے چار سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے اور اسکے دو روز بعد کوئٹہ میں پولیس ٹرک پر خودکش حملہ میں سات پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد کی شہادتیں ہوگئیں مگر امریکہ پھر بھی اس اپریشن پر پاکستان کیلئے ممنون احسان نہیں ہوا اور اسے باور کرایا جارہا ہے کہ اسکے ساتھ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے حوالے سے کوئی نرمی نہیں کی جائیگی اور اسکی نگرانی کیلئے بھارت کی معاونت حاصل کی جائیگی چنانچہ اس امریکی پالیسی کی موجودگی میں ٹرمپ انتظامیہ سے پاکستان کیلئے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگر امریکہ پاکستان کو مجبور کررہا ہے کہ وہ اسکے مفادات کی خاطر اپنے سفاک دشمن بھارت کی نگرانی بھی قبول کرلے اور اسی طرح جانی اور مالی قربانیاں بھی دیتا رہے تو پھر پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کے سوا کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ اگر امریکہ پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کے ہاتھ مضبوط کریگا تو پاکستان کیلئے بھی اپنے دفاع کیلئے چین‘ روس اور ایران سے روابط بڑھانے اور معاونت حاصل کرنے کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی سلامتی کی خاطر کسی بھی حد تک جانے میں مکمل حق بجانب ہوگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024