پاناما لیکس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت عظمٰی میں پیش کئے جانے کے بعد حزبِ اختلاف اور دیگر حلقوں کی جانب سے وزیراعظم پر مستعفی ہونے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز پاکستان بار کونسل‘ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پنجاب بار کونسل اور ڈسٹرکٹ بار کونسل راولپنڈی کی اپیل پر وکلاء نے ملک گیر ہڑتال کی اور ریلیاں منعقد کی گئیں۔ وکلاء قیادت کا موقف ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیراعظم انکے بچوں اور خاندان کے دیگر اہم افراد پر اپنی آمدن سے بڑھ کر اثاثے رکھنے کا الزام ثابت ہو چکا ہے اور وزیراعظم اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا قانونی و اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ لہٰذا انہیں اس منصب سے فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ دوسری جانب وزیراعظم واضح کر چکے ہیں کہ وہ مستعفی ہونگے اور نہ ہی قومی اسمبلی کو تحلیل کیا جائیگا اور انکے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان جو بھی فیصلہ کرے اسے کھلے دل سے تسلیم کیا جائیگا۔ وکلاء بلاشبہ اس ملک کا انتہائی باشعور قانون پسند اور سنجیدہ طبقہ ہے۔ وکلاء برادری کی اس ملک کیلئے خدمات سے ا نکار کسی صورت ممکن نہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک اس وقت اندرونی طور پر ایک پریشان کن سیاسی بحران سے دوچار ہے جبکہ ہمارے خطے میں تزویراتی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے ملک کو مزید انتشار کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔ پاناما لیکس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کی حیثیت ’’تفتیش‘‘ کی ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج یہ آبزرویشن دے چکے ہیں کہ اس رپورٹ کو مکمل یا جزوی طور پر تسلیم یا رد کرنا ان کا استحقاق ہے۔ عدالت عظمیٰ رپورٹ کے ساتھ جمع کروائی جانے والی دستاویزات اور شواہد کا خود جائزہ لینے کا اعلان کر چکی ہے۔ گویا یہ بات طے ہے کہ معزز عدالت نے ابھی تک وزیراعظم کو ان سے منصب سے ہٹانا ضروری نہیں سمجھا۔ اس صورتحال میں وکلاء برادری کو تحمل اور ضبط سے کام لینے کی ضرورت ہے اور وزیراعظم کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کو کرنے دیا جائے۔ اور Due process of law کو مکمل ہونے دیا جائے۔ ہڑتال اگرچہ وکلاء کا جمہوری حق ہے لیکن اسکے نتیجے میں عدالتوں میں مقدمات کی سماعت رک جاتی ہے اور سائلین کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاناما لیکس کی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی کسی نہ کسی حد تک عام سائیلین کے مقدمات تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں اور ایسے میں وکلاء کی ہڑتال صورتحال کو مزید پریشان کن بنانے کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی وزیراعظم پرمستعفی ہونے کیلئے دبائو بڑھانے میں پیش پیش ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے کارکنان کو ملک کے تمام اضلاع میں حکمرانوں کیخلاف ریلیاں نکالنے کی ہدایت کی ہے۔ ایک جانب حزبِ اختلاف کا حکومت اور وزیراعظم کے حوالے سے لہجہ سخت ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس جلتی پر تیل ڈالنے کا کام خود ن لیگ کے بعض وفاقی اور صوبائی وزراء کے اشتعال انگیز بیانات کر رہے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھانے سے گریز کرے اور وزیراعظم اپنے کارکنان،خاص طور پر وزراء اور مشیران،کو غیر ضروری اور اشتعال انگیز بیان بازی سے روکیں ۔حکومت، حزب اختلاف اور وکلاء تنظیمیں وطن عزیز میں سیاسی اختلاف کو اس نہج اور درجے تک لے جانے سے گریز کریں کہ جہاں سے واپسی کا سفر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو سکتا ہے۔ ملک پہلے ہی سیاسی زلزلے کی زد میں ہے اور ایسے میں سیاسی بے یقینی کو فروغ دینا کسی طور دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024