سینیٹ فورم پالیسی ریسرچ کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ تقریباً 22 ملین ایکڑ فٹ سالانہ پانی ضائع ہو رہا ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، زراعت کیلئے وافر پانی ناگزیر ہے۔ یہی پانی انسانوں اور جانوروں کے پینے کے بھی کام آتا ہے۔ ہم جیسی ناشکری اور لاپروا قوم کوئی اور کیا ہو گی جو پانی کا بڑا حصہ ضائع کر دیتی ہے۔ بھارت ہمارے حصے کا پانی روک رہا ہے، اس کے خلاف عالمی فورموں پر بے دلی سے آواز اٹھائی جاتی ہے۔ ایک وزیر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس عالمی فورموں پر اپنے کیس لڑنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ سینیٹ فورم پالیسی ریسرچ کے اجلاس میں کہا گیا کہ داسو، بھاشا اور مہمند ڈیمز بنانے کیلئے وسائل موجود نہیں، ایک ڈیم کو بنانا شروع کرتے ہیں تو دوسرے ڈیم کی تجویز آ جاتی ہے، جس سے پہلا منصوبہ بھی رک جاتا ہے۔ ساتھ ہی خدشے کا اظہار بھی کیا گیا کہ 2025 تک فی پاکستانی کو ایک ہزار کیوسک میٹر پانی کم ہو کرفی کس آٹھ سو تریسٹھ کیوسک میٹر رہ جائے گا۔ ایک بڑے فورم پر بیٹھ کر بڑے لوگ کیا بات کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک ملک ہے‘ لمیٹڈ کمپنی نہیں کہ ایک وقت میں ایک ہی منصوبے پر کام ہو گا۔ منصوبہ ساز کہاں ہیں اور یہ کیسے منصوبہ ساز ہیں جو نئی تجویز آنے پر جاری منصوبوں سے دستکش ہو جاتے ہیں۔ ارسا کے پاس جدید سائنسی ٹیلی میٹری سسٹم نہیں ہے، یہ سسٹم کیوں نہیں ہے؟ وسائل کی کمی ہے تو میٹروز موٹر ویز کیسے بن رہی ہیں۔ یہی فورم کہتا ہے، پاکستان کو سیلاب سے 48 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ ان لوگوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہئے جو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ مزید کتنا نقصان کرانا اور ملک کو قحط سالی سے دوچار کرانا اور سیلابوں میں ڈبونا ہے۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ پی ایس ڈی پی میں اتنے منصوبے رکھے جائیں جو مکمل کیے جا سکیں، سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے شروع کیے گئے منصوبہ جات مکمل نہ ہونے سے قومی خزانے کو نقصان ہوتا ہے، ملک میں ندی نالوں کا پانی دریائوں اور سمندر میں بہہ جانے سے بچانے کیلئے قابل عمل منصوبے شروع کیے جائیں۔ کالا باغ ڈیم سے بہتر اس مقصد کیلئے اور کوئی منصوبہ نہیں ہو سکتا ۔ فورم پالیسی ریسرچ کا اجلاس چیئرمین سید نیئر حسین بخاری کی زیر صدارت ہوا، جس میں سینیٹرز محسن لغاری، افراسیاب خٹک، محمد انور بھنڈر، ہارون اختر خان، رخسانہ زبیری نے بھی شرکت کی۔ یہ فاضل ارکان کیا اپنی اپنی پارٹی کو پانی کی کمی کے نقصانات اور کالا باغ ڈیم سمیت آبی ذخائر کی افادیت پر قائل کریں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024