جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلم ممالک کی شمولیت ناگزیر ہے۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں جرمن چانسلر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ اسلام دہشت گردی کا منبع و ماخذ ہے بلکہ وہ سمجھتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلم ممالک کو بھی شامل کرنا چاہئے۔ انہوں نے مسلم عمائدین پر بھی زوردیا کہ وہ واضح الفاظ میں پ±رامن اسلام اور اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کی نشاندہی کریں۔ یورپ شدت پسندی کے خلاف جنگ تنہا نہیں لڑ سکتا۔ اس لڑائی میں یورپ کو امریکہ کی عسکری طاقت کی بھی ضرورت ہے۔ مرکل نے کہا روس سے مل کر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میںشریک ہونے پر اعتراض نہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے میونخ میں سکیورٹی کانفرنس کے پینل ڈسکشن میں شرکت کی۔ پینل ڈسکشن کا موضوع انسداد انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ مغرب کی الگ تھلگ رہنے کی پالیسی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رکاوٹ ہے۔ مغرب کی حالیہ پالیسیاں دہشت گردی میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔ مزید براں افغان صدر اشرف غنی اور امریکی نائب صدر مائیک پنس کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔ جس میں انسداد دہشت گردی اور معاشی تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا۔
دہشتگردی کسی ملک یا علاقے کا مسئلہ نہیں، اس نے عالمی عفریت اور ناسور کی شکل اختیار کر لی ہے۔ کوئی ملک اس کی دستبرد سے باہر نہیں۔ دہشتگردی کا مقابلہ بھی کوئی ملک تن تنہا یا چند ممالک گروپ بنا کر نہیں کر سکتے۔ اس کیلئے مضبوط عالمی اتحاد کی ضرورت ہے۔ جس میں مغرب و مشرق اور اسلامی و غیر اسلامی دنیا کی تفریق روا نہ رکھی جائے۔ دہشتگرد تنظیموں کے تانے بانے پوری دنیا میں موجود ہیں، یہ تنظیمیں اب علاقائی نہیں رہیں جو علاقائی تنظیمیں تھیں وہ بھی داعش و القاعدہ جیسی تنظیموں سے کسی نہ کسی طرح اور سطح پر مربوط ہو چکی ہیں۔ دہشتگرد انسانیت کا خون بہاتے ہیں۔ ان کےلئے مذہب و ملت کی کوئی تمیز اور امتیاز نہیں ہے۔ آج داعش کو دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک تنظیم سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سفاکیت سے کون سا ملک محفوظ ہے؟ اس کے لیڈران کے نام مسلمانوں جیسے ہیں مگر مساجد اور خانقاہوں پر حملوں سے ان کی اصلیت واضح ہو جاتی ہے۔ اس تنظیم نے مسجد نبوی کے قریب حملہ کر کے اہل اسلام کے دل زخمی کر دیئے۔ یہ تنظیم عرب اور یورپی ممالک کو یکساں نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کی تازہ ترین بربریت لال شہباز قلندر کے مزار پر دھمال ڈالنے والے زائرین کو نشانہ بنانا ہے جس میں نوے افراد خواتین اور بچوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔ جاں بلب افراد کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے درست نشاندہی کی ہے کہ مغرب کی الگ تھلگ رہنے کی پالیسی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں رکاوٹ ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے برملا اعتراف کیا ہے یورپ شدت پسندی کے خلاف جنگ تنہا نہیں لڑ سکا۔ وہ تو روس کو بھی انسداد دہشتگردی کارروائیوں میں شریک کرنے پر آمادہ ہیں۔ مرکل کے بقول وہ اسلام کو دہشتگردی کا منبع و ماخذ نہیں سمجھتیں مرکل کی یہ درست سوچ ہے۔ مغرب میں اسلامی انتہاءپسندی کا ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسی سوچ رکھنے والے لوگوں کے سرخیل ثابت ہوئے۔ ان کے اسلام کے بارے میں منفی تاثر اور تحفظات دور کرنے کیلئے او آئی سی علما اور دانشوروں کی خدمات حاصل کرے۔ گزشتہ روز پاکستان کی 20 بڑی دینی جماعتوں نے دہشتگردی اور خودکش حملوں کو حرام قرار دیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں دہشتگردی ہو، سہولت کاروں کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں، علمائے کرام کی تعلیمات کے ذریعے عام مسلمان کو دہشتگردوں سے تعاون سے نہ صرف الگ رکھا جا سکتا ہے بلکہ یہ دہشتگردوں کے تعاقب میں بھی ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کو میونخ میں ملاقات کے دوران امریکی نائب صدر مائیک پنس نے انسداد دہشتگردی میں تعاون بڑھانے پر یقین دلایا۔ آج پاکستان ایک بار پھر دہشتگردی کی بری طرح لپیٹ میں آ چکا ہے۔ ایک ہفتے میں چھ سات پے در پے اور تباہ کن واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں اور ہر واقعہ کا کھُرا افغانستان میں جاتا ہے۔ اکثر کی ذمہ داری افغانستان میں موجود دہشتگردوں نے قبول بھی کی۔ لاہور دھماکے کے خودکش بمبار کا سہولت کار گرفتار ہوا اس کے بیان میں حملہ آور دہشتگرد کا تعلق افغانستان سے بتایا گیا ہے۔ ضرب عضب اپریشن کے بعد پاکستان سے فرار ہو کر دہشتگردوں کے گروہ افغانستان چلے گئے اب وہ وہاں سے پاکستان کے خلاف ہولناک کارروائیاں کر رہے ہیں، یہ لوگ افغان انتظامیہ کی مرضی کے خلاف وہاں موجود رہ سکتے ہیں نہ کوئی کارروائی کر سکتے ہیں۔ پاکستان نے بارہا نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کیا مگر پہلے حامد کرزئی کوئی نوٹس نہیں لیتے تھے اب اشرف غنی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تو پاکستان کو خود اسی طرز پر کامیاب اپریشن کرنا پڑا جس طرح امریکہ پوری دنیا میں مطلوب دہشتگردوں کو نشانہ بناتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان میں مداخلت اور دہشتگردی کیلئے استعمال کرتا آ رہا ہے۔ بھارت اپنی دانست میں کشمیر میں حریت تحریک کا بدلا پاکستان میں مداخلت سے چکا رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ کشمیر کاز کو دبانے کیلئے دہشتگردی کی لہر کو تقویت دی جا رہی ہے۔ یہ انہی کا کام ہے جو ہمیں کمزور کرنا چاہتے ہیں اور ان حملوں کے ذریعے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا منہ بند کرانا چاہتے ہیں۔ پاکستانی سفیر نے عزم ظاہر کیا کہ ہم دہشتگردی کے خلاف ہر محاذ پر لڑیں گے۔ افغانستان کے اندر گھس کر دہشتگردوں پر دوبار حملے پاکستانی سفیر کے اسی عزم کا ثبوت ہے۔
افغانستان میں پاک افواج کی کارروائیوں پر افغان حکومت نے روایتی احتجاج ضرور کیا ہے تاہم افغان آرمی چیف جنرل قدم شاہ شاہیم نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کی فہرست پاکستان کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی ملی ہے۔ افغان سرزمین پر دہشت گردوں کی سرگرمیاں روکنے کیلئے کوشاں اور دہشت گردوں کی فہرست پر کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ضرورت پڑنے پر مزید معلومات کا مطالبہ بھی کریں گے۔ افغانستان میں گولہ باری پر پاک افغان حکام نے تحفظات سے ایک دوسرے کو آگاہ کیا کسی کو افغان سرزمین پر حملے یا آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے۔ جنرل قدم شاہ شاہیم اگر خود پاکستان کو مطلوب دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو پاکستان کو بارڈر پار مہم جوئی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اگر افغان سرزمین پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف استعمال ہوتی ہے تو پھر اب خاموشی کی توقع عبث ہے۔
پاکستان کو دہری دہشتگردی کا سامنا ہے۔ ایک تو شدت پسندوں کی دہشتگردی جس کا دنیا کو بھی سامنا ہے اور دوسری بھارت کی مسلط کردہ دہشتگردی ہے۔ بھارت ان قوتوں کو بھی پاکستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال کرتا ہے جو شدت پسندی میں ملوث ہیں، بھارتی ایجنٹ اور اس کے گماشتے بھی پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس سے عالمی برادری اور دنیا کی واحد سپر پاور بھی آگاہ ہے مگر نوٹس لینے سے قاصر ہے اور مصلحتوں کا شکار ہے یا پھر اس کی یہی منشاءبھی ہے۔ اس حوالے سے ایک چشم کشا امریکی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ امریکہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے۔ اس بات کا انکشاف امریکہ کے سابق وزیر دفاع چک ہیگل نے جاری کی گئی ایک ویڈیو میں کیا ہے۔ سابق امریکی وزیر دفاع نے 2011ء میںاوکلاہوما میں کیمرون یونیورسٹی میں افغانستان سے متعلق ایک مذاکرے سے خطاب کیا تھا،تاہم امریکی سابق وزیر دفاع کی گفتگو کی یہ ویڈیو جاری نہیں کی گئی تھی جو اب واشنگٹن فری بیکن ویب سائٹ نے جاری کی ہے۔ اس ویڈیو میں چک ہیگل نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی دہشت گردوں کو افغانستان میں تربیت دیکر پاکستان میں دہشت گردی کراتی ہے اور یہ بھارت کا ایک گندا پہلو ہے۔ بھارت نے افغانستان کو ہمیشہ اپنی جنگ کیلئے استعمال کیا۔ بھارت برسوں سے افغانستان میں پاکستان کیخلاف دہشت گردی کی فنڈنگ کر رہا ہے اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ واضح رہے کہ سابق صدرباراک اوباما نے لیون پنیٹا کی جگہ چک ہیگل کو وزیر دفاع کے عہدے کیلئے نامزدکیا تھا۔ چک ہیگل 27 فروری 2013ءسے17 فروری 2015ءتک امریکہ کے 24 ویں وزیر دفاع رہے اور انہوں نے اپنی پالیسیوں خاص کر افغانستان سے متعلق ناکامی پر اپنے عہدے سے استعفی دیا تھا۔ عالمی دہشتگردی کے خاتمے کیلئے آج بلاِ امتیاز مسلم و غیر مسلم ممالک کے ایک مضبوط اتحاد کی ضرورت ہے تاہم امریکہ اپنے سابق وزیر دفاع چک ہیگل کے بیان کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں ترتیب دیتے ہوئے بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشوں اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے بارے میں سنجیدگی اختیار کرے تو پاکستان میں آدھی دہشتگردی دم توڑ جائے گی اور باقیماندہ آدھی مسئلہ کشمیر کے حل سے ختم ہو سکتی ہے جس سے خطے میں قیام امن کی راہ ہموار ہو گی!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38