سول اور عسکری قیادتوں کا دہشتگردوں کیخلاف پوری قوت سے فیصلہ کن کارروائی کا اعلان اور قومی یکسوئی
سول اور عسکری قیادتوں نے دہشت گردوں کیخلاف پوری قوت سے فیصلہ کن کارروائی کا اعلان کیا ہے اور طے کیا ہے کہ یہ کارروائی بلاتفریق کی جائیگی۔ یہ فیصلہ گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیر صدارت منعقدہ سول اور عسکری قیادتوں کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا۔ تقریباً پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں وفاقی وزراء چودھری نثارعلی خان اور اسحاق ڈار کے علاوہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور عسکری اداروں کے دیگر سربراہان نے شرکت کی۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر نے سانحۂ پشاور اور دہشت گردوں کی دوسری کارروائیوں کے حوالے سے اجلاس کے شرکاء کو مفصل بریفنگ دی۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائینگے اور یہ کارروائی اچھے برے طالبان کی تمیز کے بغیر ہوگی۔ گزشتہ روز صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم میاں نوازشریف کی ملاقات میں بھی یہی طے کیا گیا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرکے ملک کو امن کا گہوارہ بنایا جائیگا اور دہشت گردوں سے کسی رورعایت سے کام نہیں لیا جائیگا۔ حکومت و مملکت کے ان دونوں اعلیٰ قائدین نے واضح طور پر باور کرایا کہ عوام بالخصوص قوم کے نونہالوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
سفاک دہشت گردوں کی جانب سے سانحۂ پشاور میں ملٹری پبلک سکول کے 133 نونہالوں اور سکول کی پرنسپل‘ اساتذہ اور دوسرے عملے کے دس ارکان کو بے دردی سے قتل کرنے کے جنونی سفلی اقدام نے جہاں پوری قوم اور قومی سیاسی و دینی قائدین کو دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ کیلئے متحد و یکسو کیا‘ وہیں حکومت اور عسکری قائدین نے بھی یکسو ہو کر دہشت گردوں کے ہر ٹھکانے پر اپریشن میں بھی تیزی اور شدت پیدا کر دی ہے جو اس امر کی غماز ہے کہ اب پورا پاکستان دہشت گردی کے ناسور سے نجات کیلئے اٹھ کھڑا ہوا ہے اور دہشت گردوں ہی نہیں‘ انکے سہولت کاروں اور حامیوں کا بھی ناطقہ تنگ کیا جا رہا ہے جس کی بڑی مثال لال مسجد راولپنڈی کے باہر سانحہ پشاور کی مذمت نہ کرنیوالے اس مسجد کے خطیب مولوی عبدالعزیز کیخلاف سول سوسائٹی کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر شروع کئے گئے مظاہرے ہیں جبکہ ملک بھر کی مساجد میں گزشتہ روز نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے آئے ہوئے نمازیوں نے بھی اپنے طور پر مسجد کے خطیب کے خطبۂ جمعہ کا جائزہ لیا کہ وہ فرقہ واریت کو تو نہیں ابھا ررہے‘ چنانچہ گزشتہ روز بعض خطباء حضرات کو نمازیوں کے ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑا جو دین اسلام کے حوالے سے پھیلائی جانیوالی انتہاء پسندانہ سوچ کے ازالہ کیلئے قوم کے اجتماعی شعور کی بیداری کا غماز ہے۔ سانحۂ پشاور سے پہلے دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کے معاملہ میں حکومتی اور عسکری قیادتوں میں بھی اچھے اور برے طالبان کی سوچ کا عمل دخل رہا ہے اور اس حوالے سے سوسائٹی کے دیگر طبقات میں بھی متضاد آراء سامنے آتی رہی ہیں اور باوجود اسکے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں وطن عزیز نے بہت زخم کھائے ہیں اور قوم نے سکیورٹی فورسز کے دس ہزار کے قریب جوانوں افسران سمیت اپنے 60 ہزار کے قریب پیاروں کی لاشیں اٹھائی ہیں‘ طالبان کے ساتھ مختلف طبقات میں نرم گوشہ موجود رہا ہے تاہم طالبان نے 16 دسمبر کو ملٹری پبلک سکول پشاور میں معصوم طلبہ اور انکے اساتذہ کا جس وحشت و بربریت کے ساتھ قتل عام کیا‘ اس سے پوری قوم بلاامتیاز و تفریق طالبان کی جنونیت کیخلاف یکسو ہو گئی ہے اور انکے ہر صورت قلع قمع کیلئے پرعزم ہے۔ چنانچہ آج دہشت گردوں کیخلاف پوری قوت کے ساتھ فیصلہ کن کارروائی کیلئے حکومت اور عسکری قیادتیں بھی یکسو ہو کر ایک صفحے پر آچکی ہیں‘ سکیورٹی فورسز نے اپریشن ضرب عضب کا دائرہ وسیع کرکے اس میں شدت پیدا کر دی ہے اور گزشتہ ایک ہفتے سے تسلسل کیخلاف روزانہ دہشت گردوں کے کسی نہ کسی ٹھکانے پر سخت گیر اپریشن کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز بھی خیبر ایجنسی میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ایک ازبک کمانڈر سمیت 27 دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ آئی ایس پی آر کے مطابق جمعۃ المبارک کے روز باڑہ میں دہشت گردوں کیخلاف بڑا اپریشن کیا گیا جس میں 18 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ اسکے ردعمل میں سکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کے حملوں کا بھی سامنا ہے اور گزشتہ روز باجوڑ میں دہشت گردوں کے ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ سے تین ایف سی اہلکار شہید ہوئے ہیں جس سے سکیورٹی فورسز کے جوانوں کے حوصلے پست ہونے کے بجائے ان میں دہشت گردی کے تدارک کا نیا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اب امریکہ نے ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی تیز کر دیا ہے اور اب افغانستان میں بھی ڈرون حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کئے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی پاکستان کی سرحد سے ملحقہ افغان علاقے میں دو ڈرون حملوں میں طالبان کے کئی اہم کمانڈر مارے گئے‘ خود کابل انتظامیہ بھی اب پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بریفنگ کے نتیجہ میں پاکستان سے فرار ہو کر آنیوالے دہشت گردوں کے قلع قمع کیلئے پرعزم نظر آتی ہے جس کیلئے گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی نے افغان فوجی قیادت کو احکام بھی جاری کئے ہیں چنانچہ دہشت گردی کے ناسور کیخلاف اس علاقے کے عوام اور دنیا کی بیداری نے دہشت گردوں کو مکمل تنہاء کردیا ہے جس سے دین اسلام کے بارے میں پھیلائے گئے انکے تاثر کا بھی قلع قمع ہونے کی فضا ہموار ہوئی ہے۔
دہشت گردی کیخلاف یہی وہ اجتماعی شعور ہے جس کے باعث حکومتی مشینری کو دہشت گردی کے ہر روٹ اور محرک کے سدباب کیلئے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے ممبئی حملوں کے نامزد ملزم ذکی الرحمان لکھوی کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکام جاری کئے گئے تو اس پر حکومتی مشینری فی الفور حرکت میں آئی۔ حکومت نے نہ صرف ذکی الرحمان لکھوی کو نظربند کرنے کے احکام جاری کئے بلکہ اسکی ضمانت پر رہائی کے احکام سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا جس کے بعد بھارت کی جانب سے کسی قسم کے تحفظات کے اظہار اور پاکستان کیخلاف منفی پروپیگنڈے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ حکومتی ریاستی مشینری ملک کے اندر بھی دہشت گردی کے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کیلئے متحرک ہو چکی ہے۔ سزائے موت پانے والے دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے عمل کے آغاز سے دہشت گردوں کی جانب سے متعلقہ جیلوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کی اطلاعات ملتے ہی تمام جیلوں کے اندر اور باہر سکیورٹی کے انتظامات سخت کردیئے گئے ہیں جس کے پیش نظر کسی دہشت گرد کے زندہ بچ کر جانے کا اب کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ان خصوصی حفاظتی اقدامات کے تحت ہی سزائے موت پانے والے دہشت گردوں کے بلیک وارنٹ جاری کرکے انہیں پھانسی دینے کا آغاز کردیا گیا ہے اور یہ سطور شائع ہونے تک جی ایچ کیو حملہ کیس کے ملزم ڈاکٹر عثمان کو پھانسی دی جا چکی ہو گی۔ اسی طرح پھانسی کا عمل تیز کرنے کیلئے پنجاب میں پھانسی رولز تبدیل کرکے مجرمان کو بلیک وارنٹ جاری ہونے کے بعد 14 سے 21 روز تک کی دی گئی سہولت بھی ختم کردی گئی ہے اور اب بلیک وارنٹ جاری ہوتے ہی متعلقہ مجرم کو پھانسی دے دی جائیگی۔
ملک میں دہشت گردی کے پھیلتے آسیب کو محسوس کرکے اگر پہلے ہی اس نوعیت کے اقدامات اٹھا لئے گئے ہوتے اور دہشت گردوں کیخلاف بلاامتیاز کارروائی شروع کر دی گئی ہوتی تو یقیناً ہمیں دہشت گردوں کے ہاتھوں واہگہ بارڈر اور ملٹری پبلک سکول پشاور جیسی ننگ انسانیت گھنائونی دہشت گردی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب دیرآید درست آید کے مصداق دہشت گردی کے ناسور سے مکمل اور مستقل خلاصی کیلئے پوری قوم یک زبان اور یکسو ہے اور دہشت گردوں کے علاوہ انکے ہمدرد و حامی بھی قومی نفرت کی علامت بن چکے ہیں تو اب دہشت گردوں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے کیونکہ دہشت گردی کے خاتمہ پر ہی ملک کی بقاء اور قوم کے مستقبل کا دارومدار ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38