دتہ خیل اپریشن میں ملا فضل اللہ اور کمانڈر گل بہادر کے نشانہ بننے کی اطلاعات
عسکری ذرائع کے مطابق پاکستان ایئرفورس کے جیٹ طیاروں نے پیر کی شب شمالی وزیرستان میں ایک مکان کو نشانہ بنا کر گولہ باری کی جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملافضل اللہ اور طالبان کمانڈر گل بہادر بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق اس حملے میں متذکرہ دونوں طالبان رہنماء نشانہ بنے ہیں تاہم ابھی تک انکے ہلاک ہونے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ان حملوں کے بعد رات گئے پاک فوج کے جوان ٹارگٹ کی گئی جگہ کی جانب روانہ ہو گئے تاکہ ہلاک ہونیوالوں کی شناخت کی جا سکے۔ شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں واقع یہ مکان کمانڈر گل بہادر کا تھا جس میں کالعدم ٹی ٹی پی کی مجلس شوریٰ کا اجلاس جاری تھا۔ بمباری میں اس مکان کے علاوہ دہشت گردوں کے چھ دوسرے ٹھکانے بھی تباہ ہوئے۔ عسکری ذرائع کے مطابق اس مکان پر بمباری ملافضل اللہ سمیت طالبان کے کئی اہم کمانڈروں کی موجودگی کی اطلاع پر کی گئی۔ ذرائع نے اس اپریشن میں کئی اہم اہداف کے ہٹ ہونے اور 15 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
شمالی وزیرستان میں اپریشن ضربِ عضب کا آغاز 15 جون کو دہشت گردوں کی جانب سے پاک فوج کے قافلوں اور اہم تنصیبات پر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں پر زچ ہو کر کیا گیا جس کیلئے وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اتفاق رائے ہوا اور عساکر پاکستان کو اپریشن کیلئے گرین سگنل دیا گیا۔ اس سے قبل حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے بحالی ٔ امن کی تمام ممکنہ کوششیں کی جا چکی تھیں جو شدت پسندوں کی جانب سے ریاستی اتھارٹی کو مسلسل چیلنج کرنے کی بنیاد پر کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں اور جب دہشت گردوں نے کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اندر گھس کر ننگی دہشت گردی کا ارتکاب کیا جس میں سکیورٹی فورسز کی بھرپور جوابی کارروائی میںتمام دہشت گرد مارے گئے تو اسکی روشنی میںہی بے لاگ اپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کا فیصلہ ہوا اور اپریشن ضربِ عضب کا آغاز کرکے پہلے ہی اپریشن میں ڈیڑھ سو کے قریب دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا جن کی اکثریت ازبک باشندوں پر مشتمل تھی جس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ کالعدم تحریک طالبان کے انتہاء پسندانہ ایجنڈے کے تحت غیرملکی باشندے پاکستان کی سالمیت پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کرنیوالے دہشت گرد بھی غیرملکی تھے جن کے نام ’’انصارالہند‘‘ نامی ایک تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود جاری کئے۔ اس بنیاد پر ہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ ختم کیا اور اپریشن کی تائید کی۔ چونکہ جنوبی وزیرستان سے اپریشن راہ نجات کے دوران متعدد دہشت گردوں نے فرار ہو کر شمالی وزیرستان میں اپنے ٹھکانے بنالئے تھے‘ جنہیں افغانستان سے کمک حاصل ہورہی تھی اس لئے ضروری تھا کہ شمالی وزیرستان میں بھی فوری طور پر اپریشن کیا جائے مگر پہلے پیپلزپارٹی اپنے دور حکومت میں شمالی وزیرستان اپریشن سے گریز کرتی رہی اور پھر مسلم لیگ (ن) نے بھی اقتدار میں آکر دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں گومگو کی پالیسی اختیار کرلی جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے اقتدار کے دو ماہ گزار کر دہشت گردی کے خاتمہ کی قومی پالیسی طے کرنے کیلئے قومی سیاسی قائدین کی آل پارٹیز کانفرنس طلب کی جس میں ایک مبہم قرارداد منظور کرکے مذاکرات کو پہلا آپشن بنایا گیا اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے طالبان کے حامی بعض علماء دین کی خدمات حاصل کرکے کالعدم ٹی ٹی پی سے رابطوں کا سلسلہ شروع کیا جس کا حکومت کو غیرمنطقی مطالبات کی صورت میں ٹی ٹی پی کی جانب سے منفی جواب ملا جبکہ دہشت گردوں نے مذاکرات کی حکومتی کوششوں کو اسکی کمزوری سمجھ کر دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ کر دیا۔ اسی دوران کالعدم ٹی ٹی پی کا امیر حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں اپنے قریبی ساتھیوں سمیت مارا گیا تو ملا فضل اللہ نے ٹی ٹی پی کا امیر منتخب ہوتے ہی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ بند کر دیا اور حکیم اللہ محسود کا بدلہ لینے کی دھمکیاںدینا شروع کر دیں۔ اسی تناظر میں اہم فوجی ٹھکانوں اور کانوائز پر خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد حکومت کے پاس اپریشن کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا جبکہ عسکری قیادتیں پہلے ہی ملک کی سلامتی کے تحفظ کی خاطر فیصلہ کن اپریشن کیلئے تیار تھیں جن کے پاس دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی مکمل معلومات تھیں چنانچہ اپریشن کا آغاز ہی بڑی کامیابی سے ہوا جس سے دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوئے۔
عساکر پاکستان نے ڈیڑھ ماہ کے دوران اپریشن ضرب عضب میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں اب تک اہم کمانڈروں سمیت آٹھ سو سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جبکہ شمالی وزیرستان میں انکے ایک سو سے زائد ٹھکانے اور اسلحہ تیار کرنے والی درجنوں فیکٹریاں تباہ کی گئی ہیں۔ اگر گزشتہ شب کے اپریشن میں ملا فضل اللہ اور کمانڈر گل بہادر کی ہلاکتوں کی تصدیق ہو گئی تو یہ اپریشن دہشت گرد گروپوں کی کمر توڑنے کے مترادف ہو گا جس سے یقینی طور پر وہ مزاحمت کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔ اگر افغانستان کی جانب سے بھی کالعدم ٹی ٹی پی اور دوسرے شدت پسند گروپوں کیخلاف بے لاگ اپریشن کیا جائے اور ان کا پاکستان کی جانب فرار ہونا روک دیا جائے تو یہی وہ اہم مرحلہ ہے جب دہشت گردوں کا قلع قمع کرکے اس خطے کو دہشت گردی کے ناسور سے مستقل طور پر پر نجات دلانے کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔
ہماری دھرتی پر گزشتہ بارہ سال سے جاری دہشت گردی کی جنگ میں افواج پاکستان نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں جس کے دس ہزار کے قریب جوان اور افسران دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں جبکہ دہشت گردوں نے جی ایچ کیو‘ کامرہ ایئربیس‘ مہران نیول ہیڈکوارٹر اور ایئربیس‘ کراچی اور پشاور ایئرپورٹ اور متعدد دوسری اہم تنصیبات پر حملے کرکے عسکری اداروں کو ہی ناقابل تلافی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ریاستی اتھارٹی کے کمزور ہونے کا تاثر قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ اگر حکومت دہشت گردی کی جنگ میں بدستور گومگو کی پالیسی اختیار کئے رکھتی تو ملک میں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا تصور پختہ ہوتا اوریہاں عملاً دہشت گردوں کا ہی راج ہوتا جنہیں ملک اور اس میں رائج سسٹم کی سلامتی سے کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ اسلحہ‘ گولہ بارود اور خودکش جیکٹوں کے زور پر اپنی ساختہ شریعت کے نفاذ کے درپے ہیں۔
یہی وہ صورتحال ہے جس کی بنیاد پر حکومت کو بالآخر سخت گیر اور فیصلہ کن اپریشن کی جانب جانا پڑا اور اپریشن ضرب عضب میں اب تک حاصل ہونیوالی کامیابیوں نے اپریشن کے فیصلے کو درست ثابت کردیا ہے۔ اس اپریشن کے دوران عساکر پاکستان نے پوری جانفشانی اور بہادری کے ساتھ ملک کی سلامتی کے تحفظ کا فریضہ نبھایا ہے جس میں عساکر پاکستان کا قیمتی جانی نقصان بھی ہوا ہے مگر ہماری عسکری قیادتوں کے سر فخر سے بلند ہیں کہ انہوں نے قوم کے اچھے مستقبل اور وطن عزیز کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کیلئے جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔ یقیناً ارض وطن پر جانیں نثار کرنے کے جذبے سے سرشار عساکر پاکستان پر پوری قوم کو فخر ہے اور اسی بنیاد پر اپریشن ضرب عضب کیلئے ہر طبقہ زندگی کی جانب سے انہیں مکمل تائید و حمایت حاصل ہوئی ہے اور یہی وہ قومی جذبہ ہے جو عساکر پاکستان کے ذریعے ملک میں امن لوٹانے کی ضمانت بنے گا۔ اس اپریشن کے باعث شمالی وزیرستان کے دس لاکھ کے قریب شہریوں کو عارضی طور پر بے گھر ہونا پڑا ہے۔ انکی ہمت اور قربانیاں بھی لائق ستائش ہیں جن کی کفالت اور بحالی کی ذمہ داری صرف حکومت پر ہی نہیں‘ من حیث القوم ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ کے اس اہم مرحلے میں اگر یکسوئی اور ثابت قدمی کا دامن تھامے رکھا گیا تو وہ دن اب دور نہیں جب ارض وطن کو دہشت گردی کے ناسور سے مستقل نجات مل جائیگی۔ گزشتہ شب دتہ خیل کا اپریشن اس کامیابی کا ہی پیش خیمہ ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38