سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ عدلیہ نے آئین شکنی کی روایت کو توڑ کر قانون کی حکمرانی سے متعلق اپنے سماجی کردار کو وسیع کر دیا ہے، ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں، انتظامی خرابیوں کا بوجھ بھی عدلیہ کو اٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان کی عدلیہ پر موجودہ دور میں بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عوام نے قربانیاں دیکر عدلیہ کو آزادی لے کر دی، آزادی کے بعد عوام نے عدلیہ سے بہت ساری توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ عدلیہ کا کام انصاف کی فراہمی ہے لیکن عدلیہ میں اس وقت صرف اوپر والی سطح پر انصاف ملتا نظر آ رہا ہے۔ نچلی سطح پر انصاف سُست روی کا شکار ہے۔ لوئرکورٹس میں کرپشن عروج پر ہے جبکہ انصاف بھی مہنگے داموں ملتا ہے اور مقدمات سُننے کی رفتار بھی انتہائی سُست ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ اس کا نوٹس لیں تاکہ عوام کو جلد انصاف مل سکے۔ 2007ء کے بعد سپریم کورٹ انسانی حقوق کی علمبردار بن کر سامنے آئی ہے اور چیف جسٹس نے عوامی مسائل پر سوموٹو ایکشن لیکر عوام کو حقیقی معنوں میں انصاف فراہم کیا ہے لیکن یہ بھی محدود سطح پر تھا۔ موجودہ عدالت کو سوموٹو ایکشن لینے والے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے عدلیہ کے وقار میں مزید اضافہ کرنا چاہئے۔ اسکے ساتھ ساتھ لوئر کورٹس کی اصلاح بہت ضروری ہے تاکہ عوام نے عدلیہ کے ساتھ جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں وہ پوری ہو سکیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024