کاکول پہنچنے پر وزیراعظم کا پرتپاک خیرمقدم‘ سیاسی اور فوجی قیادتوں کے مابین سردمہری ختم ہونے لگی…وزیراعظم جمہوریت کیلئے خطرہ بننے والے ہاکس کو قابو میں رکھیں
کاکول میں 129ویں پی ایم اے لانگ کورس کی پاسنگ آوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ فوج کا پیشہ اپنی خاص نوعیت کے باعث وفاداری اور قربانی کا متقاضی ہے۔مضبوط معیشت اور دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر مضبوط ملکی دفاع ناممکن ہے ہمیں قومی مقاصد کے حصول کیلئے مل جل کر کام کرنا ہو گا۔ حکومت ملک کے ناقابل تسخیر دفاع کیلئے فوج کو تمام ممکنہ وسائل مہیا کریگی۔ آپ کو جنرل راحیل شریف جیسے افسروں کا کردار بھی ذہن میں رکھنا چاہیے، مت بھولیے گا کہ آپ کی قوم آپ پر بھرپور اعتماد کرتی ہے۔ قبل ازیں وزیر اعظم پاکستان پاسنگ آوٹ پریڈ کی تقریب میں شرکت کیلئے کاکول پہنچے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ان کا استقبال کیا۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید بھی انکے ہمراہ تھے۔ پریڈ گرائونڈ آمد پر وزیراعظم نوازشریف کو سلامی دی گئی جس کے بعد وزیراعظم نے پریڈ کا معائنہ کیا۔ وزیراعظم نے اعلیٰ کارکردگی پر حمزہ کمپنی کو قائداعظم پرچم دیا۔ پی ایم اے لانگ کورس میں پاس آئوٹ ہونے والوں میں 7 کیڈٹس کا تعلق فلسطین اور بحرین سے ہے۔
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے فوجی اکیڈیمی کاکول کا دورہ ایسے وقت میں کیا جب جمہوری حکومت اور پاک فوج کے درمیان سرد مہری کا تاثر پایا جاتا تھا۔ سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین غلط فہمیاں چند وزراء کے غیرضروری بیانات سے پیدا ہوئیں۔ اس کا اعتراف وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے 13 اپریل کو پریس کانفرنس کے دوران کرتے ہوئے کیا تھا کہ ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فوج اور حکومت کے مابین دوریاں پیدا کرنے میں وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر یلوے خواجہ سعدرفیق کی طرف سے مشرف کے حوالے سے مختلف مواقع پر دیئے گئے بیانات سے پیدا ہوئیں۔ فوج کو کبھی براہ راست اور کبھی بین السطور تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بی بی سی کے مطابق وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں اور پھر ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اب کوئی فوجی آمر جمہوریت کی بساط لپیٹ کر اقتدار پر شب خون نہیں مار سکے گا۔ پرویز مشرف اور کچھ فوجی جرنیلوں نے فوج کو اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا‘ فوج کے ایک ادارے نے غداری کے مقدمے کے ملزم پرویز مشرف کو پناہ دے رکھی ہے۔ خواجہ سعد رفیق مشرف کے بارے میں زیادہ ہی جذباتی ہوگئے اور مرد کا بچہ بنیں جیسے الفاظ استعمال کئے ۔یہ اگر عامیانہ زبان نہیں تو مہذبانہ بھی نہیں ہے ۔ان بیانات کے بعد فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے سات اپریل کو غازی بیس تربیلا میں پاکستان فوج کے سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران کہا تھا کہ پاکستانی فوج ملک کے تمام اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے لیکن اپنے وقار کاہرحال میں دفاع کریگی۔
آرمی چیف کی سپیشل سروسز گروپ کے ہیڈکوارٹر میں دو سطری سٹیٹمنٹ کو عمومی طور پر وزراء کے بیانات کا جواب قرار دیا اور اسکے ساتھ کچھ حلقوں کو جمہوریت خطرات میں گھری نظر آنے لگی۔ حکومت اور فوج کے مابین طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پہلے ہی اختلافات موجود تھے جن میں مذکورہ بیان بازی کے بعد مزید شدت کے تذکرے ہونے لگے۔ اب معاملات آہستہ آہستہ سیٹل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ خواجہ سعدرفیق اور خواجہ آصف نے اپنے بیانات کی وضاحت کرکے فوج کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔ خواجہ آصف نے پاسنگ آئوٹ پریڈ میں شرکت سے چند گھنٹے قبل اپنے بیان میں کہا کہ باوقار فوج ملک کا اثاثہ ہے‘ میرا ارادہ کسی ادارے کو نیچا دکھانا نہیں تھا۔ اگر یہ حضرات جذبات کی رو میں بہہ کر بیانات نہ دیتے اور ہوش کا دامن تھامے رکھتے تو فوج کے ساتھ غلط فہمیوں اور اختلافات میں اضافے کی نوبت نہ آتی جو پہلے ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور بھارت کے ساتھ تعلقات و تجارت میں فروغ کے اقدامات اور بے پایاں خواہشات کے باعث موجود تھیں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سیاسی قیادت کے ساتھ سردمہری کے خاتمے کیلئے وزیراعظم نوازشریف کو پاسنگ آئوٹ پریڈ میں بطور مہمان خصوصی شریک ہونے کی دعوت دیکر اہم کردار ادا کیا۔ وزیراعظم وہاں گئے اور آرمی چیف کیلئے غیرروایتی طور پر اچھے کلمات ادا کئے‘ اس سے بھی حکومت کی طرف سے تعلقات کو معمول پر لانے کا عندیہ ملتا ہے۔ یہ بھی عجب صورتحال ہے کہ بھاری مینڈیٹ کی حامل جمہوری حکومت کو اپنے ماتحت ادارے فوج کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کیلئے باقاعدہ پلاننگ کرنی یا اقدام اٹھانا پڑتے ہیں۔ یہ بھی شاید اس لئے ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت ابھی تک مضبوط جڑیں نہیں پکڑ سکی۔ بہرحال موجودہ حالات میں نہ صرف فوج اور حکومت کے مابین مثالی تعلقات ہونے چاہئیں بلکہ ہر ادارے کو اپنی حدود کا پابند اور دوسرے اداروں کا احترام کرنا چاہیے۔ جس کا اظہار تجزیہ نگار دانشور‘ سیاست دان اور ہر طبقہ فکر کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے عالمی جوڈیشل کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گڈگورننس کیلئے اداروں کو حدود میں رہنا ہوگا۔ آج سابق چیف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی ایک ٹی وی گفتگو میں کہا کہ ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔
قیاس آرائیاں ہیں کہ پاک فوج مشرف کے ساتھ ہے‘ فوج کی طرف سے ایسی کوئی واضح رائے سامنے نہیں آئی۔ مشرف پر ہائی ٹریزن کیس ہے‘ مشرف‘ انکے وکلاء اور دیگر کئی حلقوں کا اصرار ہے کہ اس کو انتہائی غداری نہیں‘ آئین شکنی کا کیس کہا جائے۔ کیس کو جو بھی نام دے لیں‘آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ہوگا۔ آئین اور قانون کے مطابق خصوصی عدالت میں ٹرائل ہو رہا ہے۔ مشرف پر فرد جرم عائد ہو چکی‘ یہ کیس اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ مشرف کے حامی اور مخالف اس کیس میں رخنہ اندازی کی کوشش نہ کریں۔ عدالت کو فیصلہ کرنے دیں‘ شواہد اور شہادتوں کے مطابق سزا یا بریت کا فیصلہ ہو جائیگا۔ پوری دنیا کی نظریں اس کیس پر ہیں‘ ملزم کو اپنے دفاع کا پورا موقع ملنا چاہیے تاکہ شفافیت پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ میاں نوازشریف کو اپنے ہاکس پر قابو پانا ہوگا۔ انکے غیرذمہ دارانہ بیانات سے عدالت پر اثرانداز ہونے کا تاثر ابھر سکتا ہے جس سے کیس کی شفافیت مشکوک ٹھہرے گی۔
آج ملک مختلف بحرانوں سے گزر رہا ہے‘ عوام مہنگائی‘ بجلی و گیس کی قلت‘ لاقانونیت سے تنگ ہیں۔ دہشت گردوں نے ارض وطن کو بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ فرقہ واریت کا عفریت پھنکار رہا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور کراچی میں بھتہ خوروں‘ قبضہ اور دیگر مافیاز نے آگ لگا رکھی ہے۔ ایسے میں پوری قوم کو متحد رکھنے کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز ان حالات میں اداروں میں کشیدگی و چپقلش کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرینگے تو معیشت مضبوط ہو گی۔ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے سیاست دانوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی جو جس کا کام ہے‘ وہی کرے‘ دوسروں کے کام میں ٹانگ نہ اڑائے۔ وزیر دفاع نے تو اپنے محکمے کا دفاع کرنا ہوتا ہے‘ موصوف میڈیا میں فوج کو للکارنے لگے۔دیگر وزیر بھی اپنا اپنا کام کریں‘ بیان اور جواب البیان کیلئے وزیر اطلاعات کافی ہونے چاہئیں۔ اب معاملات معمول پر آرہے ہیں جس کا کریڈٹ وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔کابینہ کے ارکان جمہوریت کی مضبوطی اور عوام کی مشکلات کم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔