لاہور کے انتخابی معرکے میں مشکل ترین حالات میں مریم نواز کی سرخروئی اور مسلم لیگ (ن) کو کمزور کرنے کی جاری سازشیں
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی نااہلیت کے باعث خالی ہونیوالی لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں بیگم کلثوم نواز نے پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو 14 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے شکست دے کر یہ بڑا انتخابی معرکہ مار لیا جبکہ یاسمین راشد کے سوا انکے تمام مدمقابل امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد اس حلقہ میں 2013ءکے انتخابات میں میاں نوازشریف کے مدمقابل امیدوار تھیں اور اس وقت میاں نوازشریف تقریباً 40 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے منتخب ہوئے تھے جبکہ اس وقت ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 51 فیصد تھا۔ موجودہ ضمنی انتخاب میں ٹرن آﺅٹ 31 فیصد رہا اور بیگم کلثوم نواز کو صرف 14 ہزار ووٹوں کی لیڈ ملی۔ اس طرح موجودہ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کے محفوظ حلقے میں انکے ووٹ کم ہوگئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس انتخابی معرکے میں سب سے زیادہ ہزیمت کا سامنا ”وفاق کی علامت“ پیپلزپارٹی کو کرنا پڑا جس کے امیدوار فیصل میر نے صرف ایک ہزار 414 ووٹ حاصل کئے جبکہ پیپلزپارٹی کے قائدین اس انتخاب میں اپنی پارٹی کیلئے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع کررہے تھے۔ فیصل میر اس انتخاب میں پانچویں نمبر پر آئے جبکہ حیران کن طریقے سے لبیک پارٹی کے امیدوار شیخ اظہر حسین رضوی 7130 ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن پر آئے اور حافظ سعید کے حمایت یافتہ محمد یعقوب شیخ نے 5822 ووٹ حاصل کرکے چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ دیگر 38 امیدواروں سے اکثر امیدوار سو کا ہندسہ بھی کراس نہیں کر سکے اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی حامی جماعت مووان پارٹی کی امیدوار روحی بانو کھوکھر نے صرف دس ووٹ حاصل کئے۔ اس ضمنی انتخاب کے نتائج جماعت اسلامی کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہیں جس کے امیدوار ضیاءالدین انصاری صرف 592 ووٹ حاصل کر سکے ہیں جبکہ انکے مدمقابل ایک آزاد امیدوار محمد زبیر خاں نیازی نے تن تنہا 534 ووٹ حاصل کرلئے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی سے اپنی راہیں الگ کرنیوالی بیگم ناہید خاں کی ورکرز پیپلزپارٹی کو بھی اس ضمنی انتخاب کے نتائج نے اپنی حیثیت کا بخوبی احساس دلا دیا جس کی سیکرٹری جنرل ساجدہ میر صرف 62 ووٹ حاصل کر پائیں۔
اگرچہ اس ضمنی انتخاب کو مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں نے میاں نوازشریف کی نااہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کی بنیاد پر عدلیہ کیلئے چیلنج بنانے کی کوشش کی تاہم یہ ضمنی انتخاب بنیادی طور پر حکمران مسلم لیگ (ن) کیلئے ہی چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا جس کے قائد میاں نوازشریف پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت نااہل قرار پائے تو انہوں نے ریاستی اداروں کے ساتھ مزاحمت کا راستہ اختیار کرلیا اور بذریعہ جی ٹی روڈ اسلام آباد سے لاہور تک اپنی پبلک ریلی میں سپریم کورٹ اور فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مسلسل یہ سوال اٹھاتے رہے کہ انہیں کیوں نکالا گیا ہے۔ وہ اس امر کے بھی شدومد کے ساتھ داعی رہے کہ وہ عوام کی عدالت کے پاس جارہے ہیں جو انہیں سرخرو کرکے واپس لائے گی۔ انہوں نے ضمنی انتخاب میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو انتخاب لڑانے کا فیصلہ واپس لے کر اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو امیدوار بنایا جبکہ وہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے روز گلے کے کینسر کے عارضہ کے باعث اچانک لندن چلی گئیں جن کی عیادت کیلئے میاں نوازشریف کو بھی لندن جانا پڑا جبکہ انہوں نے انتخابی مہم کی نگرانی انتخابی سیاست میں پہلے سے سرگرم عمل حمزہ شہباز کے بجائے اپنی صاحبزادی مریم نواز کو سونپ دی جس سے پارٹی کی صفوں میں کمزوری کا تاثر پیدا ہوا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں تحریک انصاف نے اس انتخاب کیلئے حکمت عملی اپنی سیاسی بقا کو سامنے رکھ کر طے کی اور عمران خان خود اپنی پارٹی کی امیدوار کی انتخابی مہم کو لیڈ کرتے رہے جنہوں نے اس حلقے میں اپنے انتخابی جلسے کا بھی انعقاد کیا اور اس حلقے کے ووٹروں پر زور دیتے رہے کہ وہ پی ٹی آئی کی امیدوار کو کامیاب کرکے میاں نوازشریف کو نااہل قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر مہرتصدیق ثبت کریں۔
اس جارحانہ انتخابی فضا میں مسلم لیگ (ن) کیلئے خاصی مشکلات پیدا ہوتی نظر آرہی تھیں اور پیپلزپارٹی کے قائدین بھی اس انتخاب کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کررہے تھے۔ اس ماحول میں مریم نواز نے تن تنہا اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلائی اور وہ میاں نوازشریف کی نااہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ اور مبینہ طور پر اسکے پس پردہ ”خفیہ ہاتھوں“ کو تنقید کا نشانہ بناتی رہیں اور حلقہ کے ووٹرز کو باور کراتی رہیں کہ وہ ”شیر“ پر مہر لگا کر میاں نوازشریف کی نااہلیت کے فیصلہ کو مسترد کرینگے۔ اس طرح انہوں نے میاں نوازشریف کی اختیار کردہ ریاستی اداروں کے ساتھ مزاحمت کی پالیسی کو آگے بڑھایا۔ مسلم لیگ (ن) کیلئے اس مشکل انتخابی صورتحال میں یہ کٹھن صورتحال بھی پیدا ہوگئی کہ الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نگرانی پاک فوج اور رینجرز کو سونپ دی جس سے حکومتی پارٹی کیلئے روایتی انتخابی دھاندلی کے ممکنہ دروازے بھی بند ہوگئے جبکہ بالخصوص دو دینی جماعتوں لبیک پارٹی اور ملی مسلم لیگ نے انتخابی معرکے میں اپنے امیدوار لا کر اور ان کیلئے منظم مہم چلا کر مسلم لیگ (ن) کے ووٹ تقسیم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ مگر تنہاءمریم نواز ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ اور زندگی کو لاحق خطرے سمیت تمام کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہوئے میدان عمل میں آئیں اور پوری انتخابی مہم کے دوران اس حلقے میں موجود رہیں اور اپنی جذباتی و جارحانہ تقریروں کے ذریعے پارٹی ورکروں میں جوش و جذبہ ابھارتی رہیں جس کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) نے اس انتخابی معرکے کا میدان مارلیا ہے تو بلاشبہ یہ انکی ذاتی کوششوں کا ہی ثمر ہے چنانچہ اس انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کو پڑنے والے ووٹوں کا تناسب اور لیڈ کا مارجن کم ہونے کے باوجود کامیابی اس پارٹی ہی کا مقدر بنی ہے تو بلاشبہ مریم نواز اس کریڈٹ کی مستحق ہیں جو اس انتخابی معرکے میں مسلم لیگ (ن) کی ایک بڑی لیڈر بن کر بھی ابھری ہیں۔ اگر حمزہ شہباز انتخابی مہم میں انکے ہمراہ ہوتے تو اس سے بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کو پڑنے والے ووٹوں کا تناسب اور لیڈ کا مارجن بڑھ جاتا۔ تاہم مسلم لیگ (ن) اپنے لئے مشکل ترین حالات میں بھی اس انتخابی معرکے میں سرخرو ہوئی ہے تو اس پارٹی کو اندر سے کمزور اور منتشر کرنے کے خواہش مند حلقوں کو جمہوری عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی سوچ ترک کردینی چاہیے۔
بے شک اس انتخابی معرکے میں سرخروئی کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کیلئے مشکلات کم نہیں ہوئیں جو اس وقت ملک سے باہر ہے اور مریم نواز بھی گزشتہ روز اپنے شوہر کیپٹن صفدر کے ہمراہ لندن روانہ ہو گئی ہیں۔ اس وقت میاں نوازشریف کی نااہلیت کے علاوہ شریف فیملی کے ارکان کو نیب کے ریفرنسوں کا بھی سامنا ہے جہاں سے انکی طلبی کے نوٹس جاری ہو رہے ہیں جبکہ بادی النظر میں وہ احتساب عدالت میں پیش نہ ہونے کی خاطر لندن میں مقیم ہیں۔ اس صورتحال میں لازماً انکے وارنٹ گرفتاری جاری ہونگے اور عدم پیشی پر انہیں عدالت مفرور قرار دے کر قانون میں متعینہ قید کی سزا بھی سنا سکتی ہے جبکہ انکی عدم موجودگی میں ان کیخلاف ریفرنسوں کی یکطرفہ سماعت ہوگی تو وہ اپنے دفاع کے حق سے بھی محروم رہیں گے اور اس طرح انہیں سخت سزاﺅں کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑیگا جبکہ 2018ءکے انتخابات کے مراحل بھی اس وقت تک شروع ہوچکے ہونگے۔ اگر 2018ءکے انتخابی عمل میں مسلم لیگ (ن) اپنی قیادت کے بغیر ہی میدان میں اتری تو اس کیلئے مشکلات اور بھی بڑھ جائیں گی کیونکہ موجودہ ضمنی انتخاب میں اپنی وفاقی اور صوبائی حکومت ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کیلئے رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں جن کے بارے میں وفاقی اور صوبائی وزراءخواجہ سعدرفیق‘ رانا ثناءاللہ اور خود مریم نواز یہ الزامات عائد کرتی نظر آئی ہیں جس کا سپریم کورٹ کو اپنے ازخود اختیارات کے تحت بہرصورت نوٹس لینا چاہیے کہ انتخابی عمل کے دوران انکی پارٹی کے کونسلروں اور عہدیداروں کو گھروں سے غائب کیا جاتا رہا ہے اور پولنگ والے دن انکے ووٹروں کو پولنگ بوتھوں تک پہنچنے سے روکا جاتا رہا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں جبکہ وہ نگران حکومت کے ماتحت فوج اور رینجرز کی زیرنگرانی منعقد ہونگے‘ مسلم لیگ (ن) کیلئے اپنا پنجاب اور لاہور کا ”کلہ“ سنبھالے رکھنا کتنا مشکل ہوگا جس کیلئے مسلم لیگ (ن) کے ووٹ تقسیم کرنیوالی دینی جماعتوں کی حکمت عملی بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔
اس صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اپنا اور اپنی پارٹی کا مستقبل بچانے کیلئے بہرصورت فہم و تدبر سے کام لینا ہے جس کیلئے اسے ریاستی اداروں کے ساتھ مزاحمت اور ٹکراﺅ کی پالیسی سے رجوع کرنا اور ملک واپس آکر قانون کی عملداری کا سامنا کرنا ہوگا۔ بلاشبہ سیاسی جماعتوں کا استحکام ہی سسٹم کے استحکام کی بنیاد بنتا ہے۔ پیپلزپارٹی اپنی مفاہمانہ سوچ اور ناقص انتخابی حکمت عملی کے باعث پہلے ہی سیاسی موت مر چکی ہے جسے اب سندھ میںبھی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر عوامی مقبولیت کی حامل مسلم لیگ (ن) میں بھی پارٹی قیادت کی عدم موجودگی کے باعث کمزوری درآئی تو یہ جمہوری نظام کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔ اس کیلئے اب تمام جمہوری قوتوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا اور سسٹم کے استحکام کی خاطر کوئی متفقہ انتخابی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا بصورت دیگر آنیوالے حالات سسٹم کیخلاف محلاتی سازشوں کیلئے انتہائی سازگار نظر آرہے ہیں۔