عوام کو ایک اور جھٹکا‘ ایف بی آر نے 730 کے قریب آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں 10 سے 80 فیصد تک اضافہ کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اس سے 22 ارب روپے اضافی حاصل ہونے کی توقع ہے اور اس کا مقصد تجارتی خسارہ کو کم کرنا بھی ہے۔ درآمدی دودھ‘ پھل‘ سبزیاں‘ کراکری‘ الیکٹرانکس اشیا اور گاڑیاں مہنگی ہوں گی۔
روز افزوں مہنگائی نے عام شہری کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافے سے مہنگائی کا ایک طوفان آ جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے بجلی کی قیمت تو کبھی مستقلاً کم نہیں کی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ مہنگائی تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بڑھے یا کسی اور وجہ سے، وہ جس سطح پر پہنچ جاتی اس میں کمی نہیں ہوتی۔ گزشتہ ہفتے 300 اشیاء کی درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا تھا۔ اب ایف بی آر نے 730 آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں 10 سے 80 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے، یہ دس روز میں دوسرا منی بجٹ ہے۔ اسکے یقیناً عام آدمی پر منفی اثرات ہوں گے جو مہنگائی کے مزید بوجھ تلے دب جائیگا کیونکہ ان اشیا میں سے بیشتر کا تعلق کچن آئٹمز یا پھر گھروں میں استعمال ہونے والی اشیا سے ہے جس سے لامحالہ گھریلو بجٹ بھی متاثر ہو گا۔ کیا تجارتی خسارے میں کمی کیلئے ایسے عوام دشمن اقدامات ضروری ہیں۔ اس مقصد کیلئے دیگر ذرائع اور مثبت معاشی پالیسیاں اختیار کیوں نہیں کی جاتیں۔ ہزار بارہ سو اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کے ایک اور طوفان کو نظرانداز نہیں کیاجا سکتا جو عوام کے اندر حکومت کی مقبولیت پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024