امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کا بین الاقوامی ایجنسی جائزہ لے گی۔ امریکی وزیر خارجہ کے اعلان اور امریکی قانون سازوں کے تبصروں کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی امداد پر نظر ثانی کرنے سے کم ہوتی امریکی امداد مزید کم ہوجائے گی۔کانگریس کے دو ریپبلکن نمائندگان ڈانا روہرا بیکر اور ٹیڈ پو نے ذیلی کمیٹی برائے دہشت گردی، عدم پھیلاﺅ اور تجارت کی سماعت کے دوران بھی اسی طرح کے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امریکہ پاکستان کو ہتھیار فروخت کرنا بند کرے اور پاکستان کو ایک دہشت گردی کا کفیل ملک قرار دے۔ڈانا روہرانے شکیل آفریدی کی قید اور پاکستانی خفیہ ایجنسی کے افغان طالبان سے مبینہ تعلقات پر سیکرٹری سٹیٹ کے سامنے اپنا من پسند سوال اٹھایا کہ ہم پاکستان کو اب تک امداد کیوں فراہم کر رہے ہیں؟ تاہم امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے سامنے آنے والا رد عمل غیر متوقع تھا کیونکہ وہ اکثر اس طرح کے سوالات کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا ہم پاکستان کے حوالے سے پالیسی کا جائزہ لے رہے ہیں اور یہ چند تحفظات میں سے ایک ہے جبکہ امریکی صدر نے پاکستان کے لیے امریکی فنڈنگ اور امداد کی سطح کے بارے میں سوال کیا ہے، لیکن اس معاملے پر نظر ثانی کے بعد ہی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا آپ لوگ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کو بہتر جانتے ہیں اور سراہتے ہیں، پاکستان کے ساتھ مل کر امریکہ نے افغانستان میں پائیدار امن کی بحالی جیسے مسائل حل کرنے کے ساتھ انڈو پیسفک خطے میں استحکام بھی حاصل کیا۔ان کا مزید کہنا تھا حکومت پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات بہت پیچیدہ ہیں لیکن آپ کے خدشات بھی درست ہیں۔ریپبلکن رکن ڈانا روہرانے کہا ٹرمپ انتظامیہ اس معاملے کو حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے دیکھے گی۔ان کا کہنا تھا جب آپ کسی ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات چلا رہے ہوں جو آپ کے ساتھ دوغلی پالیسی کے تحت چلتے ہوں تو ان کے خلاف ایسا فیصلہ کرنا کڑوا گھونٹ پینے کے مترادف ہے۔
امریکہ نے دہشتگردی کیخلاف جنگ کیلئے افغانستان پر یلغار کا فیصلہ کیا تو اسے پاکستان کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ آمریت کا دور تھا۔ امریکہ نے جنرل پرویز مشرف سے جو مطالبات کئے انہوں نے بلا چوں و چراں تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی سر زمین امریکہ اور اتحادیوں کو افغانستان پر حملوں کےلئے پیش کر دی۔ امریکہ نے پاکستان کے متعدد فضائی اڈے افغانستان پر حملوں کیلئے استعمال کئے۔ افغان سر زمین پر دن رات بمباری کر کے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا۔ اس میں لاکھوں افغان مارے گئے جو اس جنگ کے فریق نہیں تھے۔ طالبان اقتدار چھوڑ کر زیر زمین چلے گئے اور گوریلا وار شروع کر دی۔ ان کے مقابلے کیلئے امریکہ نے اپنے اور اپنے اتحادیوں کے لاکھوں فوجی افغانستان میں داخل کر دیئے۔ افغانستان کی تباہی کیلئے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ افغانستان پر قبضے کے بعد پاکستان کی ناگزیرت مزید واضح ہو گئی۔ اپنے لاکھوں فوجیوں کیلئے اسلحہ بارود، خوراک اور دیگر ضروریات پاکستان کے ذریعے ہی افغانستان تک پہنچائی جانی تھیں۔ امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ طالبان اقتدار کا خاتمہ کر کے ایک نام نہاد جمہوریت کی داغ بیل ڈالی مگر افغانستان پر امریکہ کا قبضہ مضبوط ہو سکا نہ حامد کرزئی اور بعد میں اشرف غنی طالبان کے ہاتھوں سے اپنے ملک کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہو سکے۔ امریکہ نے افغانیوں پر مشتمل نیشنل گارڈز کی تربیت کی اور ان کو طالبان کے ساتھ لڑنے مرنے کیلئے چھوڑ کر زیادہ تر فوجیں واپس بلا لیں۔ افغان نیشنل گارڈز کی مدد اور تربیت کیلئے 10 ہزار کے لگ بھگ امریکی فوجی اب بھی افغانستان میں موجود ہیں ان فوجیوں کو اسلحہ، خوراک اور دیگر ضروریات پاکستان کے راستے سے افغانستان پہنچائی جاتی ہیں۔ جب تک امریکی فوج افغانستان میں موجود ہے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت رہے گی بلکہ اب اس ضرورت میں مزید اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
دو روز قبل امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا تھا کہ امریکا سولہ سال بعد بھی افغانستان میں جنگ نہیں جیت رہا ، ملک میں طالبان کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کانگریس میں اپنے بیان میں کہا کہ افغانستان میں استحکام کے لیے ضروری ہے کہ مزید امریکی فوجیوں کو تعینات کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو افغانستان سے اس صورت حال میں نہیں نکلنا چاہئے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں طویل مدت کی بنیاد پر امریکی فوجیوں کو تعینات کیا جائے تاکہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کو قیام امن میں مدد دے سکیں۔اگر جیمز میٹس کی تجویز کے مطابق افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو ان کی ضروریات کا سامان بھی پاکستان کے راستے ہی افغانستان جائیگا اور یہ سلسلے مستقبل میں کب تک جاری رہتا ہے اس کا تعین خود امریکہ بھی کرنے کیلئے تیار نہیں تاہم جب تک افغانستان میں ایک بھی امریکی فوجی موجود ہے، اسے پاکستان کی ضرورت رہے گی۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنی سرزمین امریکہ کے حوالے کرنے کیلئے کوئی معاہدہ کیا نہ معاوضے کی بات کی تاہم امریکہ نے خود سے ایک سپورٹ فنڈ قائم کر کے اس میں سے پاکستان کو حصہ دینا شروع کر دیا۔ کچھ سال ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ سپورٹ فنڈ دیا جاتا رہا پھر اس میں کمی کر دی گئی۔ اب امریکہ پاکستان کے لئے ہر سال سپورٹ فنڈ کا اعلان اور ادائیگی بھی مینگنیاں ڈال کر کی جاتی ہے۔ گذشتہ سال نوے کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا ان میں سے 55 کروڑ ڈالر جاری کئے گئے جبکہ 35 کروڑ ڈالرز کی ادائیگی حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط کر دی گئی۔ 2015ءکے لئے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ایک ارب ڈالر رکھے گئے تھے۔ اس میں سے ستر کروڑ ڈالر جاری ہوئے اور تیس کروڑ ڈالر روک لئے گئے تھے۔ اس وقت بھی حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکہ اب تک پاکستان کو 2002ءکے بعد سے تقریباً 16 ارب ڈالر کی سپورٹ فنڈ کی مد میں ادائیگی کر چکا ہے۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی جنگ میں پاکستان کا انفراسٹرکچر کی تباہی کی مد میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ جانی نقصان کی بات کی جائے تو 6 ہزار سکیورٹی فورسز کے افسروں و جوانوں سمیت 70 ہزار افراد اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر پاکستان خود بری طرح دہشتگردی کی لپیٹ میں آ گیا۔ امریکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا ہے۔ عموماً پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف بھی کرتا ہے مگر کبھی کبھی طوطا حشم بن کر یکسر پاکستان کے کردار اور قربانیوں کو فراموش کر کے دھمکیوں پر اتر آتا۔ بلاجواز مطالبات اور پابندیوں سے بھی گریز نہیں کرتا۔ کبھی غصے میں آ کر ”امداد“ میں کمی کر دیتا ہے۔
پاکستان کو امریکہ جو ادائیگی کر چکا اور جو اس کے ذمے ہے اسے امداد کہنا ہی غلط ہے۔ یہ ان خدمات اور سہولیات فراہم کرنیکا کا معاوضہ ہے جو پاکستان امریکہ کو اپنی تنصیبات کے استعمال اور سامان حرب و ضرب کی نقل و حمل کیلئے فراہم کرتا ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہ معاوضہ بھی خود امریکہ طے کرتا ہے حالانکہ اس کیلئے دو طرفہ معاہدے کی ضرورت ہے جسے ایک آمر نے نظر انداز کیا اور بعد ازاں جمہوری ادوار میں بھی اس کوتاہی کا ازالہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کا یہ بیان کہ پاکستان کو دی جانیوالی امداد کا جائزہ بین الاقوامی ایجنسی لے گی، افسوسناک ہے۔ اس کے بعد پاکستان کی ”امداد“ پر نظر ثانی ہو گی اور وہ مزید کم ہو جائے گی۔ کانگریس کے ری پبلیکن نمائندگان ڈانا روہرا بیکر اور ٹیڈپو بھارتی لابی کے زیر اثر ہیں جو پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کی شدید مخالفت کر چکے ہیں۔ بیکر نے تو پاکستان کیلئے کبھی خیر کا کلمہ نہیں کہا یہ بلوچستان کی علیحدگی کا حامی ہے۔ شکیل آفریدی کی رہائی سے پاکستان کی امداد کو مشروط کر چکا ہے۔ حقانی نیٹ کی بھی صرف اسی کو پاکستان میں موجودگی نظر آتی ہے۔ یہ دراصل بھارت کی زبان بولتا اور پاکستان کے خلاف کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ رہتا ہے۔ ایسے لوگ نہ جانے کس دنیا میں بستے ہیں جن کو حقائق کا ادراک ہے نہ اپنے ملک کے نفع و نقصان کا احساس ہے۔ پاکستان کو آخر کس حد تک دبایا جا سکتا ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پاکستان امریکہ کے ایسے معاندانہ اور مخاصمانہ رویوں کے باعث ایک بار پھر افغانستان کیلئے اس کی سپلائی بند کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ امریکہ انصاف سے کام لے، پاکستان کا نقصان 110 ارب ڈالر کا ہوا۔ آپ نے صرف سپورٹ فنڈ کی مد سے زیادہ سے زیادہ 16 ارب ادا کئے وہ بھی قسطوں میں اور اسے امداد کا نام دیا جا رہا ہے۔ امریکہ اپنی امداد اپنے پاس رکھے اور پاکستان کا 100 ارب ڈالر کانقصان پورا کر دے۔ امریکہ نے پاکستان کو دبائے رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور ڈومور کے تقاضوں میں اضافہ ہوتا رہا تو پاکستان ایسا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہو گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کی سرزمین کسی بھی مقصد کیلئے استعمال کرنے کا معاہدہ ہونا چاہئیے اور اس معاہدے کے تحت باقاعدہ معاوضہ بھی طے کیا جائے۔