نکیال سیکٹر میں بھارتی گولہ باری‘ ڈی جی ایم او کا بھارتی ہم منصب سے رابطہ‘ بھارتی خلاف وریوں کو امن کیلئے خطرہ قرار دیدیا
بھارتی فوج نے نکیال سیکٹر کے مختلف علاقوں پر بلا اشتعال گولہ باری کی جس سے خاتون سمیت3افراد زخمی ہو گئے نکیال سیکٹر کے علاقے ترکنڈی میں بھارتی گولہ باری سے تین مکان بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ پاک فوج نے بھارتی اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دیتے ہوئے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا ۔ دوسری جانب بھارتی فوج کی جانب سے پاک فوج کی گاڑی کو نشانہ بنانے پاکستان بھارت ڈی جی ایم اوز کا ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا جس میں پاکستان نے چار جوانوں کی شہادت پر احتجاج کیا۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی ڈی جی ایم او میجر جنرل ساحر نے بھارتی ہم منصب سے ہاٹ لائن پر رابطہ کرکے گزشتہ روز وادی نیلم میں بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں چار پاکستانی جوانوں کی شہادت پر شدید احتجاج کیا۔ انہوں نے بھارتی ہم منصب سے کہا کہ پاک فوج کسی بھی جارحیت پر جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی بند کرے جارحیت کے ایسے واقعات شدید اور بڑی کشیدگی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ بھارت کی ایل او سی پر خلاف ورزیاں امن کیلئے خطرناک ثابت ہوں گی۔ ایسے اقدامات امن و استحکام کی کوششوں کو نقصان پہنچائیں گے۔ سپلائی لائن کو متاثر کرنے کی روایت نہیں ڈالنا چاہئے، اشتعال انگیزی نہ روکی گئی تو پاکستان مزید سخت اور موثر اقدامات کریگا۔
گزشتہ سال 8 جولائی کو بھارتی سفاک سپاہ کے بہیمانہ تشدد سے برہان مظفروانی اور اسکے دوستوں کی شہادت کے بعد کشمیریوں کے آزادی کے جذبہ جنوں میں اضافے کا جو آغاز ہوا اس کا تسلسل جاری ہے۔ بہادر کشمیری بھارتی فورسز کی بربریت اور اسکی طرف سے استعمال ہونیوالے پیلٹ گنوں جیسے مہلک اسلحہ کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کو جھکانے کے تمام بھارتی حربے اور ہتھکنڈے ناکام ہوچکے ہیں۔ مظفروانی کی شہادت سے تحریک آزادی کو جو مہمیز ملی اور جو ٹمپو بن گیا تھا‘ اسے کشمیریوں نے وادی کے اندر‘ جہاں جہاں دنیا میں کشمیری آباد ہیں‘ وہاں اور پاکستان میں حکومتی اور عوامی سطح پر برقرار رکھا ہے۔ 80ءکی دہائی میں شروع ہونیوالی انتفاضہ میں آج جدت اور تیزی بھی آگئی ہے۔ ان سارے عوامل کے پیش نظر بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اس نے بھی کشمیریوں کی تحریک اور جذبہ آزادی کو کچلنے کیلئے ظلم‘ جبر اور بربریت کی انتہاءکردی ہے۔ وہ وادی میں کشمیریوں کیخلاف پرتشدد کارروائیوں‘ انسانی حقوق کی پامالی کو چھپائے رکھنے کیلئے شرمناک ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم پر پردہ ڈالے رکھنے کیلئے اقوام متحدہ‘ او آئی سی اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے انسانی حقوق کے وفود کو مقبوضہ وادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا۔ بھارتی فورسز کے مظالم سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ مظفروانی کی پہلی برسی سے قبل بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں سوشل میڈیا پر بھی پابندی عائد کردی۔ مگر بھارتی فورسز کی کشمیریوں پر بربریت کے اس قدر واقعات ہیں کہ ان میں سے چند ایک بھی سامنے آنے پر انسانیت کو دہلا کے رکھ دیتے ہیں۔
گزشتہ ضلع اننت ناگ میں بھارتی فورسز نے ایک اور فرضی جھڑپ میں بے گناہ 3 کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا۔اننت ناگ کے علاقے نوگام میں بھارتی فورسز کی بھاری نفری نے ایک گھر کا محاصرہ کر لیا اور کچھ دیر بعد وہاں سے 3 نوجوانوں کی گولیوں سے چھلنی نعشیں برآمد کر کے اسلحہ گولہ بارود اور کچھ پاکستانی میٹریل انکے گرد ڈال کر فرضی جھڑپ دکھادی۔ بھارتی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ شہید ہونیوالے سعد، جبران اور ناصر کالعدم لشکر طیبہ کے مجاہدین تھے جو کنٹرول لائن پار سے آئے تاہم مقامی کشمیریوں کی بڑی تعداد جعلی جھڑپ والے گھر کے گرد جمع ہو گئی اور بھارتی فورسز کیخلاف احتجاج شروع کر دیا۔ انہوں نے فوجیوں پر پتھراﺅ بھی کیا۔
انسانی آزادی اور بنیادی حقوق کی مقبوضہ کشمےر مےں یہ صورتحال ہے کہ بھارتی پولیس نے حریت فورم کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق میرواعظ عمر فاروق کواس وقت گرفتار کرلیا جب وہ اپنے ماموں طارق احمد بچھ کے نماز جنازہ میں شرکت کیلئے سرینگر کے علاقے نگین میں اپنی رہائش گاہ سے باہر نکلے تھے۔ میر واعظ عمر فاروق گزشتہ تین ہفتوں سے گھر میں نظربند ہیں اور انہوںنے جب گھر سے باہر نکلنے کی کوشش کو تو پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔
وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم میں جہاں اضافہ ہوا‘ وہیں لائن آف کنٹرول پر اسکی شرپسندی میں شدت بھی بڑھ گئی ہے۔ اسکی فوج ایل او سی پر پاک فوج کو نشانہ بناتی ہے تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے۔ مکار بنیئے کی طرف سے یہ بے شرمی‘ سفاکیت اور انسانیت سوزی کی انتہاءہے کہ شہری آبادیوں‘ راہگیروں کو عورتوں بچوں سمیت گولہ باری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس پر پاکستان کی طرف سے شدید احتجاج کیا جاتا رہتا ہے مگر اب انف از انف کی نوبت آیا چاہتی ہے جس کا عندیہ پاکستان کے ڈی جی ایم او کی طرف سے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ گفتگو میں ملتا ہے جس میں میجر جنرل ساحر نے واضح کیا کہ بھارت کی ایل او سی پر خلاف ورزیاں امن کیلئے خطرناک ثابت ہونگی۔
خطے میں بھارت کے توسیع پسندانہ جارحانہ عزائم صرف پاکستان کے حوالے سے ہی نہیں‘ دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی بھارتی رویہ جارحیت پر مبنی ہے۔ بھوٹان‘ نیپال‘ مالدیپ اور سری لنکا جیسے ممالک میں بھارتی مداخلت اور خارجہ معاملات پر قدغن لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوت دنیا کے سامنے رکھے جاچکے ہیں۔ اب بھارت امریکہ کے ایماءپر چین کو بھی آنکھیں دکھا رہا ہے۔ آج سکم میں بھارت کی چین کے ساتھ فوجی کشیدگی عروج پر ہے۔ چین نے اسی بارڈر پر فوجی مشقیں کی ہیں۔ چین کے عسکری مبصرین کا کہنا ہے کہ ان مشقوں کا مقصد بھارت کو یہ پیغام دینا ہے کہ چین بھارتی فوج کو کسی بھی وقت زیر کر سکتا ہے۔
آج 19 جولائی کو یوم الحاق پاکستان منایا جارہا ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کا کل رقبہ 84000 مربع میل ہے جس میں 87% مسلمان ہیں۔ کشمیر اور برصغیر ہندوپاک کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ کشمیر اور بھارت کے درمیان براہ راست آمد ورفت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جہاں تک کشمیر اور پاکستان کی سرحد کا تعلق ہے اس کا بیشتر حصہ میدانوں سے گزرتا ہے۔ اس سے ذرائع آمدورفت کا عمل سامنے آیا۔ تقسیم ہند سے پہلے تینوں سڑکیں کشمیر میں پاکستان سے ہوکر جاتی تھیں جو پاکستان کے ساتھ جموں کشمیر کے قدرتی الحاق کی بھی بین دلیل ہے۔ گرداس پور جو کہ پہلے پاکستان کا حصہ بنا دیا گیاتھا لیکن بعد میں سازش کے ذریعے راتوں رات بھارت میں شامل کر دیا گیا جس سے بھارت کو کشمیر کےلئے راستہ مہیا کیا گیا۔ کشمیر سے آنیوالے دریا مثلاً جہلم، راوی، چناب پر پاکستان کی زرعی معیشت کا دارومدار ہے۔ دفاعی نقطہ نظر سے بھی ہندوستان، پاکستان کو مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ جموں کشمیر اور پاکستان کے لوگ جغرافیائی ، مذہبی ، ثقافتی اور سماجی طور پر ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور قیام پاکستان سے پہلے بھی، پاکستان ، کشمیریوں کی قدرتی جائے پناہ تھی۔ ان وجوہات کی بناءپر مسلمانان کشمیر کی سب سے بڑی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے بانی صدر سردار ابراہیم کی رہائش گاہ پر چوہدری حمید اللہ کی صدارت میں ایک اجلاس 19جولائی 1947ءکو منعقد ہوا جس میں متفقہ طور پر پاکستان سے الحاق کی قرار داد منظور کی گئی اور مہاراجہ سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ اس کو تسلیم کرے۔ کشمیری آج بھی الحاق پاکستان کیلئے نہ صرف کوشاں ہیں بلکہ جانوں کے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کررہے ہیں۔ ا ن کا یہ خواب اقوام متحدہ کی استصواب کے حوالے سے قراردادوں پر عمل کرکے ہی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
آج کشمیریوں کی تحریک آزادی جس عروج پر آگئی ہے اس سے منزل مراد قریب ہوتی نظر آتی ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔ وانی کی شہادت کے بعد پاکستان کی طرف سے بلاشبہ مسئلہ کشمیر پوری قوت سے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ میں کشمیریوں کا کیس پوری تیاری اور مدلل طریقے کے ساتھ پیش کیا مگر افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ پاکستان بھارت کشیدگی جس سطح پر جاچکی ہے‘ اسکے باوجود بھارت کے ساتھ تجارت جاری ہے اور وہ بھی خسارے کی۔ بھارت دنیا کے سامنے تجارت کے اعدادوشمار رکھ کر خوشگوار تعلقات کا تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور ایل او سی پر بڑھتی بھارتی شر پسندی بھارت کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی متقاضی ہے۔