عمران خان اور شیخ رشید کی پارلیمنٹ کو لعنت ملامت کیخلاف قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد مذمت اور طاہرالقادری کا فسادی ایجنڈاقومی اسمبلی نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد کیخلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی ۔ قرارداد میں جو وفاقی وزیر بلیغ الرحمان نے پیش کی‘ متذکرہ دونوں سیاسی قائدین کے پارلیمنٹ کے بارے میں ادا شدہ الفاظ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان دونوں سیاسی قائدین نے پارلیمان کے تقدس کو مجروح کیا ہے جبکہ وہ خود بھی اسی ایوان کے رکن ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پارلیمان عوام کا نمائندہ ادارہ اور جمہوریت کی علامت ہے جو بانیٔ پاکستان کے وژن اور آئین کے مطابق ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا استحکام اور سربلندی جمہوریت سے وابستہ ہے اور ملک میں کسی دوسرے نظام کی ہرگز ضرورت نہیں۔ قبل ازیں حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے نمائندگان نے پارلیمنٹ کو گالیاں دینے پر عمران خان اور شیخ رشید کیخلاف کارروائی کیلئے انہیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے استحقاق میں طلب کرنے کا تقاضا کیا اور کہا کہ اگر وہ پیش نہ ہوں تو انہیں گرفتار کرکے کمیٹی کے روبرو لایا جائے۔ اجلاس میں پیپلزپارٹی کے رہنماء اعجاز حسین جاکھرانی نے پارلیمنٹ کو گالیاں دینے والوں کیخلاف مشترکہ طور پر تحریک استحقاق لانے کا بھی تقاضا کیا۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں اس سے بڑی بے شرمی اور بے حیائی نہیں دیکھی کہ جس تھالی میں کھاتے ہیں‘ اسی میں چھید کرتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی عمران خان اور شیخ رشید کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ یہ استعفے دیتے ہیں تو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس موقع پر ایوان میں موجود حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے پارلیمنٹ اور عوام زندہ باد کے نعرے بھی لگائے۔
یہ حقیقت ہے کہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان میں جمہوریت کی عملداری اور پارلیمنٹ کے تقدس کو خراب کرنے کے ایجنڈے کے تحت اپنے ملک کینیڈا سے یہاں آکر کچھ عرصہ کیلئے اودھم مچاتے ہیں اور پھر مقاصد پورے نہ ہونے پر اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں۔ انہیں اس وطن عزیز اور یہاں کے مروجہ نظام کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ صرف اپنی نمودونمائش چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے وہ ماضی میں اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی پر بھی غالب ہونے کی کوشش کرچکے ہیں۔ انکے کردار و عمل میں تضاد کا ریکارڈ لاہور ہائیکورٹ کی فائلوں میں موجود ہے جو انکی جانب سے 1987ء میں اپنے گھر میں فائرنگ کی پیش کی گئی کہانی کی لاہور ہائیکورٹ کے ایک فاضل جج کی سربراہی میں قائم انکوائری ٹربیونل کی کارروائی کے دوران فاضل عدالت میں پیش ہوا اور فاضل جج نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے کردار پر تحریری طور پر اپنی آزردگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دروغ گو قرار دیا۔ اسی طرح 2013ء کے انتخابات کے عمل کے دوران کینیڈین شہری ہونے کے ناطے انکے کاغذات نامزدگی چیلنج ہوئے اور انہوں نے سپریم کورٹ کے روبرو خود اپنے کیس کا دفاع کیا تاہم عدالت عظمیٰ نے انہیں آئین کی دفعہ 63سی کے تقاضوں کے تحت پاکستان کا شہری نہ ہونے کے ناطے پاکستان کی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کا نااہل قرار دیا۔ اس ناطے سے وہ پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے اور کسی پاکستانی جماعت کی قیادت کرنے کے بھی اہل نہیں چنانچہ ان کا ملک کے انتخابی نظام اور اسکے تحت قائم پارلیمنٹ سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ ہی آئندہ انتخابات میں ان کا کوئی عمل دخل ہو سکتا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ موجودہ حکومت کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھنے والے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین عمران خان‘ آصف علی زرداری‘ شیخ رشید اور جماعت اسلامی کے قائدین نے بھی بغض معاویہ میں اپوزیشن کی سیاست چمکاتے ہوئے ایک ایسے شخص کے ذاتی ایجنڈے کے تحت سجائے گئے پلیٹ فارم پر آنا قبول کرلیا جو سسٹم کی بساط الٹوانے کے اپنے سازشی منصوبہ کی تکمیل کی فکر میں غلطاں ہے۔ گزشتہ روز شاہراہ قائداعظم لاہور پر طاہرالقادری کی سربراہی میں اپوزیشن کے دھرنے اور احتجاجی پروگرام کا مقصد بظاہر سانحۂ ماڈل ٹائون لاہور اور سانحہ قصور کے مظلومین کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان واقعات میں ملوث ملزمان کو سزائیں دلوانے کیلئے آواز اٹھانے کا تھا مگر اس احتجاجی جلسے میں جو شرکاء کی تعداد کے حساب سے مایوس کن تھا‘ پورے سسٹم کیخلاف دھماچوکڑی مچا کر اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کی کوشش کی گئی۔ اگر اس احتجاجی پروگرام میں شریک سیاسی قائدین قتل اور زیادتی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو سزائیں دلوانے کے متمنی ہوتے تو وہ پنجاب ہی نہیں‘ خیبر پی کے اور سندھ میں بھی ایسی سفاکانہ وارداتوں میں ملوث ملزمان کو عبرتناک سزائیں دینے کا بلاامتیاز مطالبہ کرتے مگر انہوں نے دوسرے صوبوں کے معاملہ میں صرف نظر کرتے ہوئے صرف وفاقی اور پنجاب حکومت کو مطعون کرنا ضروری سمجھا۔ اس طرح وہ دانستاً یا نادانستاً ایک غیرملکی باشندے کے فسادی ایجنڈے کی تکمیل میں اسکے معاون بنے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی موجودہ پارلیمنٹ کا ایک اہم حصہ ہے اور قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اور چیئرمین سینٹ کا منصب اسی جماعت کے پاس ہے۔ اگر یہ جماعت بھی پارلیمنٹ سمیت سسٹم کو سبوتاژ کرنیوالے کسی تخریبی ایجنڈے کا ساتھ دیتی ہے تو اسے پیپلزپارٹی کی قیادت کی ناقص سوچ سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ شاہراہ قائداعظم کے احتجاجی جلسے میں جس وقت عمران خان اور شیخ رشید نے پارلیمنٹ پر ہزار بار لعنت بھیجنے کا اظہار اور شیخ رشید نے اسکے ساتھ ہی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے اور انکی تائید میں عمران خان نے بھی اپنی پارٹی کے ارکان کے استعفے دلوانے پر غور کرنے کا اعلان کیا‘ اس وقت اگرچہ پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری اور دوسرے عہدیداران وہاں سے رخصت ہوچکے تھے تاہم پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینٹ کے قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن بدستور وہیں پر موجود تھے جن کی موجودگی میں عمران خان اور شیخ رشید نے پارلیمنٹ پر باربار لعنت بھیجی اور پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے اعتزاز احسن کو اس پر ہلکے سے احتجاج کی توفیق بھی نہ ہوئی۔ بے شک پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز بدین میں فاضل راہوکی برسی کے سلسلہ میں منعقدہ جلسے میں خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ انکی پارٹی پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے اور وہ پارلیمنٹ کی بے توقیری نہیں ہونے دینگے تاہم محترم آصف علی زرداری کو اپنی ادائوں پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ وہ محض اپنی مخالف حکومت کو گرانے کے شوق میں سسٹم کو تہس نہس کرنیوالے ایک غیرملکی شہری کے ایجنڈے کا چارہ کیوں بنے ہیں۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر سمیت پیپلزپارٹی کے ارکان نے جن الفاظ میں عمران خان اور شیخ رشید کی مذمت کی اس سے مروجہ نظام اور پارلیمنٹ کیلئے انکی دردمندی کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے تاہم ڈاکٹر طاہرالقادری کے فسادی ایجنڈے میں شریک ہو کر پیپلزپارٹی کی قیادت نے ملک کے مروجہ نظام کو جو جھٹکا لگایا ہے‘ اس کا کفارہ اب انکی جانب سے جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ روز عمران خان اور شیخ رشید نے جس انداز میں پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کی‘ اسکی روشنی میں عوام یہ رائے قائم کرنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں اس پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے کا بھی کیا حق حاصل ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ جس قانون کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی لعنت ملامت کی‘ اس قانون کی منظوری کیلئے خود پی ٹی آئی کے ارکان نے بھی کردار ادا کیا ہوا ہے۔ اگر عمران خان بھی میاں نوازشریف کی طرح سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ماتحت نااہل ہوجاتے اور متذکرہ قانون ہی کے تحت انہیں دوبارہ پی ٹی آئی کا سربراہ منتخب کرلیا جاتا تو یہی قانون انکی آنکھوں کا تارا بن جاتا۔ چنانچہ ایسے ریاکار سیاست دانوں کی وجہ سے ہی درحقیقت جمہوریت کا مردہ خراب ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کی قانون سازی والے اپنے اصل کام پر توجہ مرکوز نہیں ہو پاتی۔ اسکی تازہ مثال قومی اسمبلی کا گزشتہ روز کا اجلاس ہے جس میں کورم پورا نہ ہونے کے باعث زینب کے قتل جیسے جرائم کی سزائیں بڑھانے کا بل ہی پیش نہ ہوسکا۔ زینب کی لاش پر سیاست کرنیوالے ریاکار سیاست دانوں کو ایسے بھیانک جرائم کے سدباب میں دلچسپی ہوتی تو وہ مجرمان کو سخت سزائیں دلانے کی قانون سازی میں بھی حصہ لیتے۔ قومی اسمبلی نے اس تناظر میں عمران خان اور شیخ رشید کیخلاف بجا طور پر مذمتی قرارداد کی متفقہ منظوری دی ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کا تقدس مجروح کرنے پر پارلیمنٹ کے قواعد و ضوابط کے تحت مستوجب سزا بھی ہونا چاہیے۔ عمران خان اور شیخ رشید کا ایجنڈا تمام پارلیمنٹیرین حضرات کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ یہ دونوں حضرات پارلیمنٹ کو تالہ لگوا کر کسی جرنیلی آمر کیلئے راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا اس ملک کے سسٹم کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہے۔