پانی کی تقسیم کے معاملہ پر آبی وسائل ڈویژن، ارسا اور سندھ کے اراکین پارلیمنٹ کے درمیان اڑھائی گھٹنے کی بحث بھی بے نتیجہ رہی۔ پنجاب کا موقف تھا کہ پانی کی تقسیم کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں لے جا کر حل کیا جائے جبکہ پیپلز پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کا موقف تھاکہ سی سی آئی فیصلہ کر چکی ہے اب اس معاملہ کو ورلڈ بینک کے پاس بھیجا جائے۔
پانی کی تقسیم کے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہونے چاہئیں مگر اجلاس میں ارکان اپنے اپنے موقف پر بضد رہے اور دوسرے کی بات سننے پر بھی تیار نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان نے ارسا کے نمائندے کی بریفنگ سننے سے اسی طرح انکار کر دیا جس طرح چند ماہ قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین واپڈا کی بات سننے سے انکار کر دیا تھا۔ پانی کی تقسیم کے حوالے سے اجلاس وفاقی وزیر برائے آبی وسائل جاوید علی شاہ کی صدارت میں ہوا۔ ان کیخلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد بھی منظور کی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کیلئے کالا باغ ڈیم کی بات کرنیوالے پاکستانی ناقابل برداشت ہیں۔ ہر صوبے کو پانی اسکے حصے کے مطابق ہی ملنا ہے۔ پانی کی کمی کی شدت کا ہر کسی کو احساس ہے مگر اسکے تدارک کی بہترین سبیل کالا باغ کی تعمیر کی سخت مخالفت کی جاتی ہے۔ حیران کن امر ہے کہ پاکستان کے پانی پر قابض بھارت کیخلاف ہمارا سخت ردعمل ہوتا ہے اسکے ساتھ پانی کے تنازعات طے کرنے کیلئے عالمی اداروں سے رجوع کیا گیا ہے۔ بھارت کیخلاف ہمارا کیس مقامی سطح پر اٹھنے والے تنازعات کے بعد کتنا مضبوط ہو سکتا ہے؟ پانی کی کمی سے انکار ممکن نہیں۔ یہ معاملہ لڑائی جھگڑے سے نہیں افہام و تفہیم اور ایثار ہی سے حل ہو سکتا ہے۔ کسی کو طاقتور ہونے کے زعم میں مبتلا اور کسی کو احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اتفاق رائے ممکن نہ ہو سکے تو پہلے کی طرح تقسیم کے فارمولے کی عالمی بنک سے سٹڈی کرانے میں کوئی حرج نہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024