سیاسی ‘ عسکری قیادت کا مذاکرات جاری رکھنے کا عزم اور طالبان کے سکیورٹی فورسز پر حملوں کا نیا سلسلہ …… اب بہتر ہے طالبان کی ہر کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے
خیبر ایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل میں جمعۃ المبارک کی الصبح ایف سی کی چھائونی پر شدت پسندوں کے حملے سے اسلحہ کے ڈپو میں آگ لگ گئی جس کے نتیجہ میں مسلسل تین گھنٹے تک دھماکے ہوتے رہے‘ تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ کالعدم تحریک طالبان کے ذیلی گروپ عبداللہ عظام بریگیڈ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق شدت پسندوں نے پہاڑیوں سے فرنٹیئر کانسٹیبلری کی چھائونی پر رات دو بجے کئی مارٹر گولے فائر کئے۔ اس دوران اسلحہ ڈپو پر گولے گرنے سے آگ بھڑک اٹھی اور زوردار دھماکے شروع ہو گئے جن کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ ذرائع کے مطابق کچھ گولے چھائونی کے اطراف میں بھی گرے جس سے ایک بچی اور دو خواتین زخمی ہوگئیں۔ دہشت گردی کی اس واردات کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ ایف سی چھائونی پر کوئی حملہ نہیں ہوا بلکہ اسلحہ ڈپو میں آگ لگنے سے یہ حادثہ ہوا ہے۔
دوسری جانب جمعۃ المبارک ہی کے روز پشاور اور خیبر ایجنسی کی سرحد پر فرنٹیئر روڈ پر سکیورٹی فورسز کے کانوائے پر حملہ کیا گیا جس میں ایک اہلکار شہید اور دو زخمی ہو گئے۔ اس حملے میں فورسز کی گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ سکیورٹی ذرائع نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ علاقے میں موجود مسلح عسکریت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کے کانوائے کو نشانہ بنایا ہے۔ چار روز قبل اسی علاقے میں سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے ایک مبینہ کمانڈر جنگریز کو اسکے چار ساتھیوں سمیت نشانہ بنایا تھا جس کے بعد علاقے کو سیل کرکے یہاں کرفیو نافذ کیا گیا تاہم جمعۃ المبارک کے روز کرفیو اٹھتے ہی شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کے کانوائے پر حملہ کر دیا۔
شدت پسندوں کی جانب سے خیبر ایجنسی میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کی وارداتیں کرنے اور انکی ذمہ داری بھی قبول کرنے سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان نے مذاکرات کی خاطر ایک ماہ اور دس دن تک فائربندی کرکے اس دوران خود کو منظم کیا اور اس عرصہ میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے کسی قسم کا اپریشن نہ کرنے کی پالیسی سے خوب فائدہ اٹھایا جبکہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کیلئے پیش رفت جاری رکھنے کے اعلان کے باوجود طالبان نے فائربندی میں مزید توسیع سے انکار کرتے ہوئے دہشت گردی کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا جس سے طالبان کے گروپوں اور دوسرے شدت پسندوں کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ فائر بندی کے دوران بھی شدت پسندوں کی جانب سے بدترین دہشت گردی کا سلسلہ برقرار رکھا گیا جس میں کالعدم ٹی ٹی پی نے صرف یہ احتیاط کی کہ دہشت گردی کی ان وارداتوں کی ذمہ داری خود قبول کرنے کے بجائے احرارالہند نامی ایک گمنام تنظیم کو منظرعام پر لا کر فائربندی کے دوران ہونیوالی دہشت گردی اسکے کھاتے میں ڈالی جاتی رہی اور یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ احرارالہند سمیت مذاکرات مخالف شدت پسندوں کے بعض گروپ ٹی ٹی پی کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ حکومت نے تو خلوص نیت کے ساتھ مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھانے کی کوشش کی اور طالبان کی فراہم کردہ قیدیوں کی فہرست میں سے 30 سے زائد افراد کو رہا کر دیا جبکہ وفاقی وزیر داخلہ طالبان کے مزید افراد کی رہائی کا عندیہ بھی دیتے رہے‘ اسکے برعکس طالبان نے حکومت کی فراہم کردہ فہرست میں سے نہ صرف کسی ایک کو بھی رہا نہ کیا بلکہ مذاکرات کیلئے ’’فری پیس زون‘‘ قائم کرنے اور شمالی‘ جنوبی وزیرستان میں تعینات سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو واپس بلوانے کے تقاضے بھی شروع کر دیئے جس کا عسکری قیادت کی جانب سے اس تناظر میں سخت جواب دیا گیا کہ فائربندی کے دوران ہونیوالی دہشت گردی کی زیادہ تر وارداتوں میں سکیورٹی اہلکاروں کو ہی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اس فضا میں حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کے مابین سوائے ایک اجلاس کے مزید کسی اجلاس کی نوبت نہ آسکی‘ البتہ حکومت کی جانب سے تسلسل کے ساتھ اس توقع کا اظہار کیا جاتا رہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی فائربندی میں مزید توسیع کرکے دہشت گردی میں ملوث شدت پسندوں کے گروپوں کیخلاف کارروائی کیلئے حکومت کا ساتھ دیگی مگر طالبان نے حکومت کی ان توقعات کے قطعی برعکس فائربندی میں مزید توسیع سے انکار کرکے دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے جن کی ذمہ داری پہلے ہی کی طرح کالعدم ٹی ٹی پی خود قبول کر رہی ہے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی حکومتی حلقوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ طالبان کی جانب سے سکیورٹی فورسز کے ارکان اور ٹھکانوں پر حملوں کا سلسلہ وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد شروع کیا گیا ہے جبکہ اس اجلاس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی حکومتی پالیسی کی ہی توثیق کی گئی اور اجلاس میں عسکری قیادتوں کی جانب سے بھی اسی حکومتی پالیسی کے مطابق لائحہ عمل طے کرنے کا عندیہ دیا گیا جس سے یقیناً ملک کی سلامتی کیخلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کا ایجنڈہ رکھنے والے عناصر کو اس حکومتی پالیسی میں موجود کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان کی طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے گزشتہ روز کی ملاقات میں اگرچہ مذاکرات میں تعطل دور کرنے کی کوششیں جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے اور مولانا سمیع الحق کے بقول وہ طالبان سے فائربندی میں توسیع کرانے کی بھی کوشش کرینگے تاہم اب تک کے حکومتی اقدامات اور طالبان کے عزائم سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ نہ صرف مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ پائے گی‘ بلکہ اس بیکار ایکسرسائز کا مزید فائدہ طالبان خود کو منظم کرکے اٹھائیں گے۔ اس تناظر میں تو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں متفقہ طور پر طے کی گئی اس پالیسی کو ہی عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے کہ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ انکی جانب سے دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائیگا۔ اگر طالبان نے خیبر ایجنسی میں سکیورٹی فورسز پر یکے بعد دیگرے دو وارداتیں کرکے اپنے انتہا پسندانہ ایجنڈے کو ہی عملی جامہ پہنانے کا پیغام دیا ہے تو اس معاملہ میں انکے آئندہ کے عزائم کا بھی موثر توڑ کیا جانا چاہیے اور انکی حالیہ وارداتوں کا بھی ٹھوس جواب دیا جانا چاہیے۔ قومی سلامتی اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کا یہی تقاضا ہے کہ ریاستی اتھارٹی کو بندوق اور بارود کے زور پر چیلنج کرنے والوں کا انکے ٹھکانوں سمیت قلع قمع کیا جائے۔ ہمیں ملک کی سلامتی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہو سکتی۔ ہماری سکیورٹی فورسز ملک کی سلامتی کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھانے کو تیار اور پرعزم ہیں تو حکومت کیلئے بھی اس معاملہ میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔