سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے اسلام آباد میں انتخابی اصلاحات کے بارے میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن ہوئے تو آئینی سوالات اٹھیں گے۔ لہذاحکومت کو نئی حلقہ بندیوں کیلئے خط لکھ دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایک کروڑ سے زائد خواتین کی رجسٹریشن کے اقدامات نہیں کئے گئے۔ ایک فرد 2 ووٹ ڈالے گا تو وہ ایک شمار ہو گا جو غلط بات ہے۔ پارلیمنٹ اس معاملے کو دیکھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ انتخابی قوانین ایسے ہیں کہ غریب آدمی الیکشن نہیں لڑ سکتا۔
نئے انتخابات کے انعقاد میں اب چھ سات ماہ کا عرصہ ہی رہ گیا ہے۔ پہلے یہ اعتراض تھا کہ نئی حلقہ بندیوں کے لئے نئی مردم شماری ضروری ہے۔ مردم شماری کے عبوری نتائج آئے دو ماہ ہو چکے ہیں لیکن حلقہ بندی کے ضمن میں کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ نئی حلقہ بندیوں کیلئے کم از کم 5 ماہ درکار ہوتے ہیں۔ اور اسکے بعد، الیکشن کمشن کو انتخابات کی حتمی تاریخ دینے کیلئے چار ماہ چاہئیں۔ اس ٹائم ٹیبل کو دیکھتے ہوئے اگر حلقہ بندیوں پر آج کام شروع کر دیا جائے تو انتخابات کم از کم 10 ماہ بعد ہی ہو سکیں گے۔ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو ملک میں شور مچ جائے گا۔ جبکہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں پہلے سے زیادہ محنت کرنا پڑیگی۔ اس طرح الیکشن کمیشن نے حکومت اور سیاسی جماعتوں کو بھی آگاہ کر دیا ہے کہ الیکٹرانک مشینوں کا تجربہ پاکستان میں کامیاب نہیں ہو گا۔ دنیا کے بہت کم ممالک یہ مشینیں استعمال کرتے ہیں۔ اگر الیکٹرانک مشینیں استعمال کی گئیں تو خرچہ چالیس ارب روپے ہو جائیگا جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس صرف 5 ارب روپے ہیں۔ بعض لوگوں کے انگوٹھے ایسے ہیں کہ ان پر لکیروں کے نشانات ہی نہیں ہوتے ایسے ووٹروں کی تعداد 10 سے 12 فیصد ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں سوا کروڑ سے زائد لوگوں کے نشانات ہی نادرا کے پاس نہیں۔ جو کچھ بتایا جا رہا ہے اور جو حقائق سامنے آئے ہیں اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم انتخابات کیلئے ایسے اہم کاموں سے بالکل غافل ہیں اور کوئی تیاری نہیں۔ اسی طرح انتخابات کے اخراجات کو کم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ان حالات میں تو غریب آدمی انتخابات میں شرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا خطاب ذمہ دار حلقوں اور سیاسی جماعتوں کیلئے بروقت انتباہ ہے کہ صاف، ستھرے اور شفاف انتخابات کرانے کیلئے کچھ کر لیں ورنہ پھر پرانی حلقہ بندیوں پر روائتی طریقے سے انتخابات ہوں گے‘ جو دھاندلی کے الزامات سے نہیں بچ سکیں گے اور بہت شدید بحران کا باعث ہوں گے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024