مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف نے گزشتہ روز پاکستان روانگی کے موقع پر لندن میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بنچ نے عمران خاں کی طرف سے میرے خلاف مقدمہ لڑا لیکن انصاف کے دو ترازو نہیں چلیں گے‘‘ اسی طرح مریم نواز نے بھی عدالت عظمیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’مائی لارڈ! کیا آپ کا ’’بابا‘‘ واٹس ایپ کالز بھی کرتا تھا۔‘‘ سپریم کورٹ میں حدیبیہ کیس اور عمران خاں و جہانگیر ترین کی نااہلیت کے مقدمات کے فیصلوں کے حوالے سے جس انداز میں متعلقین نے اپنے تنقیدی نشتروں کا رخ عدالت عظمیٰ کی جانب کیا وہ یقیناً عدلیہ کے لئے بھی پریشان کن تھا اس لئے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کو گزشتہ روز مجبور ہو کر مفصل یہ وضاحت کرنا پڑی کہ تمام فیصلے میرٹ پر کئے گئے ہیں‘ فیصلے کرتے وقت انصاف کے تقاضوں کو سختی سے ملحوظ رکھا گیا۔ اب مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے چیف جسٹس کی اس وضاحت پر بھی تنقید کے نشتر برسانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ جس سے ان کی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی کے تسلسل کا ہی عندیہ ملتا ہے۔ اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر قائد چودھری نثار علی خاں نے باور کرایا ہے کہ مخالفانہ ردعمل اور بیانات محاذآرائی کی کیفیت پیدا کریں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی گزشتہ روز یہی باور کرا چکے ہیں کہ ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی سیاست چھوڑ کر ہمیں اپنی توانائیاں ملک و قوم کے لئے وقف کرنی چاہئیں۔ ماضی کا سبق تو یہی ہے کہ میاں نوازشریف اور ان کی پارٹی نے اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی سے پہلے بھی نقصانات اٹھائے ہیں۔ اگر یہی رویہ اختیار کئے رکھا تو جمہوریت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مشکل اوقات میں الٹی سیدھی حرکات نائو ڈبونے کا باعث بنتی ہیں‘ جو ہوا‘ جو ہو رہا ہے اس کی وجوہات و اسباب پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے۔ اس وقت پھسلنے کی نہیں سنبھلنے کی ضرورت ہے‘ لہٰذا مسلم لیگ (ن) کے سینئر قائدین کو پارٹی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر بلیم گیم اور محاذ آرائی کی سیاست سے جماعت کو نکالنے کی کوئی حکمت عملی طے کرنی چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کو انتشار سے بچانے پر ساری توجہ مرکوز کی جائے۔ ان کی حکومت نے ساڑھے چار سال میں اتنا کام کر لیا ہے کہ وہ اس کی بنیاد پر اگلے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس صورت میں یہ جیت بھی ان کی جیت ہو گی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024