لال مسجد کے خطیب اور برقعہ اوڑھ کر اسی مسجد سے اپریشن کے دوران فرار کی کوشش کے دوران پکڑے جانیوالے مولانا عبدالعزیز نے سانحہ پشاور پر سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سانحہ کی مذمت کرنے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے انٹرویو کے دوران کہا کہ جب غلطیاں دونوں طرف سے ہوں تو وہ صرف ایک فریق کی مذمت نہیں کیا کرتے۔ سانحہ پشاور پر پوری قوم کے دل رنج و غم سے زخمی ہیں تو حضرت مولانا نے ان پر یہ کہہ کر نمک چھڑکا کہ طالبان شرعی جنگ لڑ رہے ہیں مزید یہ کہ ان کا تعلق دیوبند علماء سے ہے اور پورے ملک میں کسی دیوبندی مفتی نے ان کیخلاف فتویٰ نہیں دیا۔ مولانا عبدالعزیز کہتے ہیں کہ ضرب عضب کو مسائل کا حل نہیں سمجھتے۔ حضرت صاحب پھر بتائیں کہ معصوم بچوں کو قتل کرنا دہشت گردی کے مسئلے کا حل ہے؟ مولانا نے لال مسجد میں بچوں کی لاشوں پر سیاست کی، شاید بچوں کی سینکڑوں کی تعداد میں لاشیں دیکھ کر ان کا دل نہ دہلتا ہو، وہ پاکستان میں داعش کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں بلکہ فخر سے اپنا تعلق اس دہشتگرد تنظیم کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی موجودگی میں پاکستان سے دہشت گردی کا فتنہ ختم نہیں ہو سکتا۔ علمائے دیوبند کو اس امر کی وضاحت کرنی چاہئے کہ کیا وہ بقول مولوی عبدالعزیز واقعی دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جن علمائے کرام نے دہشت گردوں اور دہشت گردی کیخلاف فتوے دئیے کیا انکی شریعت کوئی اور ہے؟ مولانا عبدالعزیز اپنی حرکتوں سے ایک عالم دین کا وقار خاک میں ملا رہے ہیں، ایک سرکاری ملازم کو ایسی بے شرمی سے دہشتگردوں کی حمایت پر کمربستہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ پوری قوم دہشتگردی کے ناسُور سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے کہ ایسے میں وہ کچھ بدبخت دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور داعش کے نمائندے بن کر مزید دہشت گردی امپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت مولانا عبدالعزیز کی فتنہ پروریوں سے قوم کو محفوظ رکھنے کیلئے ان کو انکے عہدے سے برطرف کر کے ملک بدر کر دے تاکہ یہ داعش کے آزادی کے ساتھ معاون بنیں۔ اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں جس کی خاطر انہوں نے سینکڑوں معصوم بچیاں اور بچے شہید کروا دئیے۔ ایسے شخص سے مولانا کا ٹائٹل بھی واپس لے لینا چاہئے جو جہالت کی نمائندگی کرتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38