چین کے صدرژی جن پنگ پاکستان کے دو روزہ دورے کے موقع پر پہلے روز 20 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرینگے۔ چین کے صدر اپنی اہلیہ اور وفد کے ساتھ پاکستان آ رہے ہیں۔ مشترکہ اجلاس میں چین کا 60رکنی وفد بھی شرکت کریگا۔ چاروں صوبوں کے گورنر، وزرائے اعلیٰ، مسلح افواج کے سربراہ، سفارتکار اور دیگر مہمان بھی شرکت کرینگے۔ اس موقع پر پارلیمنٹ کی سکیورٹی ٹرپل ون بریگیڈ کے حوالے ہو گی۔ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ چینی صدر ژی جن پنگ کے دورے کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان اہم معاہدوں پر دستخط کئے جائینگے۔بتایاگیاہے کہ چینی صدر کی موجودگی میں 60 معاہدات پر دستخط کے ساتھ ہی پاک چین اقتصادی راہداری، انرجی کوریڈور اور میری ٹائم سلک روڈ کے قیام کا آغاز ہوجائیگا۔ وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے حامل سمجھوتوں میں کافی معاہدات ایسے ہیں جن کا فنانشنل کلوز کر دیا گیا ہے۔ چینی صدر توانائی سیکٹر کے پانچ منصوبوں اور انفراسٹرکچر کے متعدد منصوبوں کا سافٹ سنگ بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھیں گے۔ اس سلسلے میں 21 اپریل کو تقریب ہو گی۔ دریں اثناءجماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر کے امیر عبدالرشید ترابی نے چین کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے موقع پر انہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور تازہ ترین حالات سے آگاہ کیا۔ چین کے وزیر خارجہ نے کشمیر میں ہونیوالے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بھر پور حمایت جاری رکھے گا۔
عزت مآب صدر ژی جن پنگ نے گزشتہ سال پاکستان کے دورے پر آنا تھا مگر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں کے باعث ممکنہ سکیورٹی مسائل کی وجہ سے وہ دورہ مو¿خر کردیا گیا جبکہ چینی صدر نے بھارت کا دورہ شیڈول کے مطابق کیا۔ حکومت کی طرف سے چینی صدر کے دورے کے التواءپر عمران خان اور طاہرالقادری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ عمران خان کا مو¿قف تھا کہ چینی صدر کا دورہ شیڈول ہی نہیں تھا۔ عمران خان یہ بھی کہتے رہے کہ چینی صدر آئینگے تو ہم ان کا دھرنے کے دوران پرتپاک استقبال کرینگے۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے اس اہم موقع پر سیاسی بلوغت کا ثبوت نہیں دیا۔ چینی صدر کے پارلیمنٹ سے خطاب کے موقع پر پارلیمنٹ ہاﺅس کی سکیورٹی ٹرپل ون بریگیڈ کے سپرد کی گئی ہے۔ گزشتہ سال چینی صدر کیاان حالات میں پارلیمنٹ آتے کہ اسکے باہر ڈنڈا بردار‘ نظم و ضبط سے عاری‘ بے مہار ہجوم بیٹھا ہوتا تاہم اس وقت چینی صدر مبینہ شیڈول کے مطابق پاکستان آتے تو 46 ارب ڈالر کے معاہدوں پر پیشرفت کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہوتی۔ جہاں عمران خان اور طاہرالقادری نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا‘ وہیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی دھرنوں کے التواءکی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
امریکی صدر اوباما کے بھارتی یوم جمہوریہ پر بھارتی دورے کے بعد ہماری وزارت خارجہ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ چینی صدر 23 مارچ کی قومی پریڈ میں مہمان خصوصی ہونگے۔ اس پر پاکستان کی سفارتکاری کی بڑی تحسین کی گئی۔ مگر یہ دورہ بھی التواءکا شکار ہو گیا۔ حکومت اکتوبر 2014ءمیں چینی صدر کے دورے کے التواءکا ملبہ دھرنوں پر ڈالتی ہے‘ مارچ کے دورے کے التواءکی کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی جبکہ 20 اپریل کے دورے کا کریڈٹ لے رہی ہے۔
20 اپریل کو چینی صدر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرینگے‘ اسی روز قومی اسمبلی کا سیشن بھی شروع ہورہا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اعلان کیا ہے کہ تحریک انصاف کی 40 روز سے زائد غیرحاضری کیخلاف متحدہ اور جے یو آئی کی تحریک آچکی ہے۔ قومی اسمبلی کا سیشن 20 اپریل سے شروع ہو رہا ہے۔ ایوان کے پرائیویٹ ممبر ڈے کے موقع پر تحریک نمٹائی جائیگی۔ یمن جنگ کے حوالے سے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہمارے پارلیمنٹیرین کی ”بالغ نظری“ پوری دنیا نے دیکھ لی۔ گو کہ اکثریت اصل ایشو پر بات کرنا چاہتی تھی مگر ساٹھ 70 لوگوں نے تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں واپسی کو بنیاد بنا کر ہلڑبازی کی جس سے ان کا اپنا اور قوم کا وقت ضائع ہوا۔ بجٹ اجلاس کو بھی اپوزیشن بعض اوقات مچھلی منڈی بنا دیتی ہے۔ سینٹ کے الیکشن میں کئی فاضل پارلیمنٹیرین کے ووٹ مسترد ہوئے۔ تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں موجودگی پر متحدہ‘ جے یو آئی اور (ن) لیگ کے کچھ ارکان پھر جذباتی ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ چینی صدر کے اعزاز میں بلائے گئے اجلاس اور قومی اسمبلی کے سیشن کو گڈمڈ نہ کردیں۔ چینی صدر خطاب کیلئے آئیں اور یہ دست و گریباں ہورہے ہوں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ پارٹی لیڈر اپنے ارکان کو اجلاس کے مقصد اور اسکی حساسیت سے آگاہ کردیں۔
دیر آید درست آید چینی صدر کا دورہ قابل تحسین ہے۔ چین کی طرف پاکستان کی نہ صرف کڑے وقت میں بلکہ عام حالات میں بھی مدد کی جاتی رہی ہے مگر ہماری گومگو کی حامل خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے چین پاکستان سے مایوس ہو سکتا ہے۔ چین کے بھاری حجم کے بھارت کے ساتھ دفاعی و تجارتی تعاون کے معاہدے ہوئے‘ ایران بھی دفاعی حوالے سے بھارت کے قریب ہوا اور ہم اپنی احمقانہ خارجہ پالیسی‘ بے روح سفارتکاری کے باعث ایران سے دور ہو رہے ہیں اور عرب ممالک کو بھی ناراض کررہے ہیں۔
چینی صدر کا دورہ یقیناً پاکستان کے نکتہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو پاکستان کیلئے تبھی ثمرآور ثابت ہوگا اگر بغیر وزیر خارجہ کے وزارت خارجہ کی آنکھیں کھلی ہونگی۔ چین کے ساتھ انرجی تعاون کے معاہدے ڈیڑھ پونے دو سال سے ہو رہے ہیں‘ نندی پور پاور پراجیکٹ بھی اسی کا حصہ ہے مگر لوڈشیڈنگ میں افاقہ نہیں ہوا۔ بات معاہدوں پر ہی محدود نہیں‘ اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ اقتصادی راہداری میں سیاسی بنیاد پر تبدیلیاں کرکے اسے متنازعہ بنالیا گیاہے۔ چین پھر بھی اسکی تکمیل پر تیار ہے۔ مولانا فضل الرحمان راہداری میں تبدیلی کیلئے یا تبدیلی رکوانے کیلئے چین چلے گئے تھے۔ اس سے چین میں پاکستان کے بارے میں کیا تاثر پیدا ہوا ہوگا۔
کشمیر کے حوالے سے چین کا بعض حوالوں سے پاکستان سے بھی زیادہ سخت مو¿قف ہے۔ کشمیریوں کو چین کیلئے سادہ کاغذ پر ویزہ دیا جاتا ہے۔ کشمیریوں کیلئے بھارتی ویزہ چین قبول نہیں کرتا۔ پاکستان جس کا یہ مسئلہ ہے‘ اسکے حکمران بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں فخر سمجھتے ہیں۔ اسکے ساتھ تجارت ہوتی ہے اور دوستی کی پینگیں بڑھانے کی بے پایاں خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان اور چین کے یکساں تنازعات ہیں۔ پاکستان اور چین یکجہت ہو کر حل کرانا چاہیں تو حل ہونے کا امکان موجود ہے‘ اس کیلئے پاکستان کو زیادہ کمٹمنٹ دکھانا ہو گی۔ بھارت کی علاقائی تھانیداری کا خواب پاک چین دوستی کو مزید گہرا کرکے ہی توڑا جا سکتا ہے۔
چینی صدر کے پاکستان کے کامیاب دورے کی صورت میں جہاں انرجی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘ وہیں ترقی و خوشحالی کے راستے بھی کھلیں گے۔ پاک چین اقتصادی راہداری میں پیش رفت اور میری ٹائم سلک روڈ کے قیام کا آغاز پاکستان کی ترقی ¿ کمال کا سنگ میل ثابت ہوگا اور انکی تکمیل سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ چین پاکستان میں ریکارڈ سرمایہ کاری پر تیار ہے۔ کئی معاہدوں پر پیشرفت ہورہی ہے۔ کئی نئے معاہدے بھی ہونگے۔ چین کو امن و امان کے حوالے سے یقین دلانا ہوگا‘ اسکی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاست کے بڑے نام اپنا سرمایہ اور سرمایہ کاری پاکستان لے کر آئیں۔