گوادر میں پاکستان ایران مشترکہ سرحدی کمشن کے اکیسویں اجلاس کے دوران پاکستان اور ایران نے سرحد کی سکیورٹی صورتحال بہتر بنانے کیلئے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔ اجلاس میں منشیات کی سمگلنگ اور غیرقانونی تارکین وطن کی نقل و حرکت کی روک تھام اور اپنی سرزمین کے ایک دوسرے کیخلاف استعمال کی اجازت نہ دینے کے پختہ عزم کا اظہار کیاگیا۔ چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگزیب حق نے اپنے وفد کی جبکہ ایران کے سرحدی صوبہ سیستان بلوچستان کے ڈپٹی گورنر علی اصغر میر شکاری نے ایرانی وفد کی قیادت کی۔
پاکستان اور ایران دیرینہ دوست اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی رہے ہیں۔ برادر پڑوسی ملک ہونے کے ناطے دونوں کے مابین تعلقات عموماً خوشگوار رہے ہیں۔ پاک ایران تعلقات کئی ممالک کو کھٹکتے رہے ہیں۔ ایران اور امریکہ کے مابین شاہ ایران کے دور میں گہری دوستی تھی۔ شہنشاہ کی معزولی کے ساتھ ہی یہ دوستی دشمنی میں بدل گئی۔ ایران پر امریکہ نے پابندیاں لگائیں تو پاکستان کو بھی ایران کے ساتھ دوری اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تاہم پاکستان نے ایران کے ساتھ اس طرح قطع تعلق نہ کیا جس طرح مغربی ممالک نے کیا مگر پاک ایران معاہدے کھٹائی میں ضرور پڑ گئے۔ ایران کو پاکستان کی مجبوری کا احساس تھا اس لئے تعلقات میں سردمہری نہیں آئی۔ پاک ایران تعلقات میں گرمجوشی میں کمی بھارت ایران دوستی اور چاہ بہار بندرگاہ میں تعاون کے بعد آئی۔ بھارت نے ایران کے ساتھ تعاون کی آڑ میں کلبھوشن جیسے دہشت گرد ایران میں تعینات کئے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کرتے رہے اور بالآخر یہ گروہ پاکستان کے اندر سے گرفتار کیا گیا۔ ایران کے بھارت کے ساتھ گہرے تعلقات ایک معمہ ہیں کیونکہ بھارت اور امریکہ کے درمیان بھی گہری دوستی ہے۔ پاک ایران بارڈر پار سمگلنگ اور غیرقانونی تارکین کی آمدورفت ایک ثانوی مسئلہ ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف قیام امن کی کوششوں کی اولین ضرورت ہے۔ آئے روز ایران سے پاکستانی حدود میں گولہ باری کی اطلاعات آتی ہیں جس سے پاک ایران تعلقات میں کشیدگی آسکتی ہے۔ ایسا بھارتی ایجنڈا ہوسکتا ہے۔ ایران کو پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال رکھنے کیلئے زیادہ ذمہ داری دکھانے کی ضرورت ہے۔ سرحد کی سکیورٹی صورتحال بہتر بنانے کی مفاہمت کی یادداشت پر دستخطوں سے اس مقصد کے حصول میں مدد ملنے کی توقع کی جانی چاہئے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024