چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے دوسری پنجاب ویمن ججز کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں قائم ماڈل کورٹس میں مختصر عرصہ میں ایک بڑی تعداد میں مقدمات کے فیصلے ہوئے ہیں۔ لیکن ہمیں خیال رکھنا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں بھی نا انصافی نہ ہو۔ کیونکہ عجلت میں کیا گیا انصاف، انصاف دفن کرنے کے مترادف ہے۔
ماڈل کورٹس کے قیام سے زیر التوا مقدمات کی تعداد میں خاصی کمی آئی ہے۔ لیکن یہ احتمال بھی رہا ہے کہ مقدمات جلد نپٹانے کی خواہش میں ممکن ہے کہ فیصلوں میں انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوئے ہوں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ ریمارکس نیچے سے لے کر اعلیٰ سطح کی عدلیہ تک کیلئے رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں کہ عجلت میں انصاف، انصاف دفن کرنے کے مترداف ہے۔ فیصلہ وہی مبنی پر انصاف ہے جس پر جج کا ضمیر مطمئن ہو کہ اس نے فیصلے میں اپنے میلانات یا کسی کی آرزئوں ترغیب و تحریص یا دبائو کو شامل نہیں ہونے دیا۔ اسلام کے صدر اول میں ایسے بے شمار فیصلوں کی نظیر ملتی ہے جن میں سزا پانے والے فریق نے بھی کشادہ دلی سے انصاف کو قبول کیا۔ پاکستان کی عدلیہ کا ماٹو قرآن مجید کی یہ آیت ہے۔ ’’اعدلو! ھواقرب الیٰ التقویٰ‘‘ انصاف کرو، یہ تقوے کے قریب ہے۔ افسوس کہ ماضی میں بعض جج صاحبان کے فیصلے انصاف کے تقاضوں پر پورے نہیں اترے۔ حکومتوں نے سیاسی مخالفین کو تنگ کرنے کیلئے عدلیہ کے ذریعے نہ صرف انصاف کا خون کیا بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب ہوتا رہا ہے۔ حکومتیں اور عدلیہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہی ہیں۔ عدلیہ کے حوالے سے ایک اور سنگین شکایت یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں وکلاء نے مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے عدالتوں اور ججوں کی اہانت کی اور وکلاء تنظیموںنے بھی عدالت کا ساتھ دینے کی بجائے اپنے ساتھی وکلاء کا ساتھ دیا۔ یہ صورتحال بھی منصفانہ عدالتی فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ اور تاخیر کا باعث بن جاتی ہے۔ فرشتے کہیں نہیں ہوتے لیکن یہ بھی غنیمت ہے کہ بیشتر لوگ اچھے اور انصاف پسند ہوں اورحق بات کہتے ہوں، خواہ وہ ان کے اپنے خلاف ہی کیوں نہ جاتی ہو!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024