کلبھوشن کی سزائے موت! عالمی عدالت انصاف میں بھارتی کٹ حجتی اور پاکستان کے ٹھوس موقف پر فیصلہ محفوظ
نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف کے گیارہ رکنی بنچ نے بھارتی دہشت گرد جاسوس کلبھوشن یادیو کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد رکوانے کیلئے دائر بھارتی درخواست کی سماعت کے بعد گزشتہ روز اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بھارتی درخواست میں کٹ حجتی پر مبنی یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یادیو ایک بے قصور بھارتی شہری ہے جو ایک سال سے زائد عرصہ سے پاکستان میں قید ہے اور اسے ویانا کنونشن کے تحت اسکے حقوق نہیں دیئے جارہے اس لئے اسے پاکستان کی فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا جائے۔ گزشتہ روز اس کیس کی پیروی بھارت کی 13 رکنی ٹیم نے کی جبکہ پاکستان کی جانب سے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی خاں‘ انکی قانونی ماہرین کی ٹیم اور وزارت خارجہ کے افسران نے کلبھوشن کیخلاف پاکستان کے موقف کا دفاع کیا۔ انہوں نے بھارتی درخواست کو نامکمل اور حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے بھارتی درخواست کی سماعت کیلئے عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار کو بھی چیلنج کیا جبکہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ڈی جی ساﺅتھ ایشیاءاینڈ سارک ڈاکٹر فیصل نے عالمی عدالت انصاف کے روبرو اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ پاکستان دہشت گردوں سے نہیں ڈرے گا‘ بھارتی کمانڈر کلبھوشن یادیو نے پاکستان میں دہشت گردی کا اعتراف کیا ہے اور اسکے جبری اعتراف کا بھارتی الزام قطعی بے بنیاد ہے۔ اس موقع پر کلبھوشن کے جعلی نام سے جاری پاسپورٹ کی کاپی عدالت کے روبرو بڑی سکرین پر دکھائی گئی جس پر بھارتی وکلاءکو سانپ سونگھ گیا۔
پاکستان کی جانب سے عدالت کو باور کرایا گیا کہ کلبھوشن نے پاکستان کو نقصان پہنچانے اور معصوم شہریوں کی جانیں لینے کا اعتراف کیا ہے۔ اسکے معاملہ میں ہمیں عالمی عدالت انصاف میں کھینچا گیا ہے اسکے باوجود ہم خوشی سے پیش ہوئے ہیں۔ پاکستانی وکیل خاور قریشی نے عدالت کے روبرو رموقف اختیار کیا کہ کلبھوشن کے پاسپورٹ پر مسلمان کا نام لکھا ہے جو اسکے پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کیلئے آنے کا ثبوت ہے۔ انہوں نے باور کرایا ویانا کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف کا دائرہ کار محدود ہے۔ بھارت نے عالمی عدالت کو سیاسی تھیٹر کے طور پر استعمال کیا۔ ہم اپنی سرزمین کی حفاظت کیلئے تمام قانونی ذرائع استعمال کرینگے۔
بھارتی دروغ گوئی‘ جعلسازی اور پاکستان کیخلاف اسکے خبث باطن کا اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کلبھوشن کی سزائے موت کیخلاف اسکی دائر کردہ درخواست کی ابھی عالمی عدالت انصاف میں سماعت بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس نے عالمی میڈیا کو کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدرآمد روکے جانے کی جھوٹی خبر جاری کردی جبکہ کلبھوشن کی سزائے موت کیخلاف بھارت کا عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا کوئی جواز بھی موجود نہیں تھا اور نہ ہی ایسی کوئی درخواست آئی سی جے کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ پاکستان نے اسی بنیاد پر عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار کو بھی چیلنج کیا اور یہ جاندار موقف اختیار کیا کہ بھارت نے اگست 1999ءمیں رن کچھ میں پاکستان کا طیارہ گرایا تھا جس پر پاکستان بھارت کیخلاف عالمی عدالت انصاف میں گیا مگر بھارت نے کہا کہ اس کیس کی سماعت عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار میں نہیں اس لئے اب وہ کلبھوشن کی سزائے موت کیخلاف کس بنیاد پر عالمی عدالت انصاف میں گیا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ قومی سلامتی کا ایشو عالمی عدالت میں نہ چلایا جائے۔ آئی سی جے کے روبرو بھارت نے کلبھوشن کا اپنا شہری ہونا تسلیم کیا مگر اسکی بے گناہی کا کوئی ثبوت بھارت کے پاس نہیں تھا۔ اسی تناظر میں بھارتی لاءکمیشن نے کلبھوشن کے معاملہ میں بھارتی کیس کے کمزور ہونے کا اعتراف کیا اور کمیشن کے سربراہ نے یہ تک کہہ دیا کہ کلبھوشن کو بچایا نہیں جا سکتا۔ بھارتی کیس کے کمزور ہونے کا اس امر سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے روبرو صفائیاں پیش کرتے کرتے بھارتی وکیل کے پسینے چھوٹ گئے اور انکے ہاتھ پاﺅں پھول گئے۔ بھارتی پست ذہنیت کا اس سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں پیش ہونیوالے بھارتی افسر دیپک متل نے وہاں موجود پاکستانی سفارتکار محمد فیصل سے ہاتھ ملانا بھی مناسب نہ سمجھا اور بدتہذیبی کی انتہاءکرتے ہوئے پاکستانی سفارت کار کے بڑھے ہوئے ہاتھ نظر انداز کرکے محض نمسکار کہہ کر جان چھڑائی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران بھارتی وکیل ٹشو پیپر سے بار بار اپنا پسینہ صاف کرتے رہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران بھارتی ٹیم کے اوسان خطا ہونا ہی پاکستان کے موقف کی فتح ہے اور عالمی عدالت انصاف کو بجا طور پر باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا اعتراف کرنیوالے کمانڈر کلبھوشن جیسے لوگوں کو سزا دینا تمام ممالک کی ذمہ داری ہے۔ یقیناً یہ کیس بھارت کے ”چور نالے چتر“ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے اور کلبھوشن کی سزا کیخلاف بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں جا کر پاکستان کی سلامتی کیخلاف جاری اپنی سازشوں کو اقوام عالم کے روبرو خود ہی بے نقاب کیا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حوالے سے عالمی فورموں کے اقدامات اور فیصلوں کو درخوراعتناءنہ سمجھنا بھارت کی سرشت میں شامل ہے۔
کلبھوشن کے معاملہ ہی کی طرح بھارت کشمیر کو متنازعہ بنا کر اسکے تصفیہ کیلئے خود ہی اقوام متحدہ گیا تھا تاہم جب یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کشمیریوں کے استصواب کے حق کو تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی تو بھارت کھڑے پاﺅں اس عالمی نمائندہ ادارے کی قراردادوں پر عملدرآمد سے منحرف ہوگیا۔ اسی طرح پاکستان کے ساتھ پانی کے تنازعہ کا معاملہ بھی بھارت خود عالمی بنک کے روبرو لے کر گیا مگر جب عالمی بنک نے ہدایت کی کہ پاکستان اور بھارت باہمی مذاکرات کے ذریعے یہ تنازعہ خود طے کریں تو بھارت نے کلبھوشن کی سزائے موت کا بہانہ بنا کر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے ہی بند کردیئے ہیں اور بھارتی جنونی وزیراعظم نریندر مودی نے بڑ ماری ہے کہ پاکستان آنیوالے پانی کا ایک ایک قطرہ روک لیا جائیگا۔
اگر بھارت اپنے سفاک دہشت گرد کلبھوشن کی سزا کیخلاف عالمی عدالت انصاف میں جانا اپنا استحقاق سمجھتا ہے تو پھر ممبئی حملہ کیس میں بھارتی عدالت کی جانب سے سزائے موت پانے والے اجمل قصاب اور پارلیمنٹ حملہ کیس میں جیل کے اندر پھانسی پر لٹکنے والے کشمیری حریت لیڈر افضل گورو کی سزاﺅں کا معاملہ بھی عالمی عدالت انصاف میں جانا چاہیے جنہیں بھارتی ڈرامہ بازی کی بنیاد پر پھانسی پر لٹکایا گیا اور اجمل قصاب تک قونصلر رسائی کی پاکستانی درخواست کو حقارت کے ساتھ مسترد کردیا گیا۔ افضل گورو کو تو جیل کے اندر جھٹ پٹ پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا اس لئے کلبھوشن کی سزا کیخلاف بھارت نے عالمی عدالت انصاف کے پاس جانے کی مکارانہ چال چلی ہے تو اسے عالمی عدالت انصاف کے روبرو اجمل قصاب اور افضل گورو کی موت کی سزاﺅں پر بھی جوابدہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح فراہمی انصاف کے عالمی فورموں کو یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حوالے سے آج تک کسی عالمی فورم کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا تو وہ اپنے ایک دہشت گرد کے معاملہ میں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا کیسے استحقاق رکھتا ہے جبکہ کلبھوشن کو پاکستان کے مروجہ قوانین کے تحت دہشت گرد ثابت ہونے پر کورٹ مارشل کے ذریعے موت کی سزا دی گئی ہے۔ اسے اس کیس کی سماعت کے دوران نہ صرف صفائی کا مکمل موقع فراہم کیا گیا بلکہ اپنی صفائی کیلئے 150 دن بھی مختص کئے گئے۔ اگر کلبھوشن نے بلاکسی جبر و اکراہ پاکستان میں بھارتی ”را“ کیلئے جاسوسی اور دہشت گردی کا خود اعتراف کیا تو یہ درحقیقت پاکستان کی سلامتی کیخلاف جاری بھارت کی اپنی سازشوں کا اعتراف ہے جس پر اسے نمائندہ عالمی فورموں پر بہرصورت جوابدہ کیا جانا چاہیے۔
پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کیخلاف جن مضبوط اور ٹھوس دلائل کی بنیاد پر اپنے موقف کا دفاع کیا ہے اسکے پیش نظر غالب امکان یہی ہے کہ عالمی عدالت کی جانب سے بھارتی درخواست قابل پیش رفت نہ ہونے کی بنیاد پر غیرمو¿ثر قرار دے کر نمٹا دی جائیگی تاہم اب پاکستان کے پاس ہر عالمی فورم کے روبرو بھارتی اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کا یہی موقع ہے جسے کسی صورت ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔ بھارت کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جا کر خود ہی ٹریپ میں آیا ہے اس لئے اب سفارتی محاذ تیز کرکے پاکستان کی سلامتی کیخلاف ہر بھارتی سازش بے نقاب کی جائے تاکہ اسکی جنونیت رکوانے اور مسئلہ کشمیر یواین قراردادوں کے مطابق حل کرانے کیلئے بھارت پر عالمی دباﺅ بڑھایا جاسکے۔