حدیبیہ اور نااہلیت کے کیس کے فیصلوں پر متعلقہ جماعتوں کے قائدین کی تنقید اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کی وارننگ
ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی سیاست چھوڑ کر ہی سسٹم کو محلاتی سازشوں سے بچایا جاسکتا ہے
چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہم نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے‘ جمہوریت ہے تو آئین ہے اور آئین ہے تو ریاست ہے۔ میں قسم کھا سکتا ہوں کہ عدلیہ پر کوئی دبائو نہیں‘ کسی کا دبائو چلتا تو حدیبیہ کیس کا فیصلہ اس طرح نہ آتا۔ گزشتہ روز لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر تبصرے کرنیوالوں کو حقیقت کا علم نہیں ہوتا‘ ہم نے جتنے بھی فیصلے کئے وہ آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔ آپ کیخلاف فیصلہ آجائے تو عدلیہ کو گالیاں نہ دیں‘ ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا جو ہم پر دبائو ڈالے یا فیصلوں کیلئے پلاننگ کرے۔ یقین دلاتا ہوں کہ آئین کا تحفظ کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نظام میں تاخیر سب سے بڑی خرابی ہے۔ سپریم کورٹ کی سیاسی کچرے سے جان چھوٹ جائے تو باقی مقدمے بھی دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی عزت و ساکھ پر شک نہ کریں‘ آپ کیخلاف فیصلہ آئے تو یہ نہ کہیں کہ یہ کسی منصوبے کا حصہ بن گیا ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے کیس میں انہوں نے پارلیمنٹ کی برتری تسلیم کی ہے۔ ریاست کے سارے کام جمہوریت کے ساتھ جڑے ہیں۔ عدلیہ میں کوئی تفریق نہیں‘ سب جج ایک ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں۔ ہم فیصلے اپنے ضمیر اور قانون کے مطابق دیتے ہیں‘ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا جج کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کیلئے وکلاء پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم شاید معیاری انصاف نہیں دے پاتے۔۔ وہ عدلیہ اور وکلاء کا بڑا بھائی ہونے کے ناطے کہہ رہے ہیں کہ بار اور بنچ دونوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنا ہوگی۔ ہم دونوں کو مل کر غریب کو انصاف دینا ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ وکلاء سائلین سے بہت زیادہ فیسیں وصول کرتے ہیں۔ آپ آج سے اپنی فیس میں ڈسکائونٹ کریں۔ جج کا دیکھیں کتنا استحصال ہورہا ہے‘ ججوں کو چیمبرز میں جا کر گالیاں دینا کہاں کا شیوہ ہے۔ آپ کو عدلیہ پر فخر ہونا چاہیے۔
اپنے خلاف فیصلہ صادر ہونے پر عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنانے کی روایت تو پہلے بھی موجود تھی‘ بالخصوص نظریہ ضرورت کے حوالے سے عدلیہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہی ہے تاہم ریاست کے اہم ستون عدلیہ پر بلیم گیم اور ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی سیاست میں جتنی چڑھائی موجودہ دور میں ہوئی ہے‘ اسکی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بے شک عدلیہ کے کوڈ آف کنڈکٹ میں بھی کسی عدالتی فیصلے پر آئین و قانون کی روشنی میں مثبت تنقید کی گنجائش رکھی گئی ہے تاہم کسی کیس کی سماعت کے دوران بھی عدالتی کارروائی پر تنقید عدالتی کارروائی میں مداخلت کے مترادف سمجھی جاتی رہی ہے جو توہین عدالت ایکٹ کے زمرے میں آتی ہے اور ایسے کسی معاملہ کا ازخود اختیار کے تحت نوٹس لینا عدلیہ کا استحقاق ہے۔ پہلے تو عدالت کی جانب سے ازخود اختیار کے تحت توہین عدالت کے نوٹس جاری کرنے کا تصور ہی کسی فریق کے خوفزدہ ہونے کیلئے کافی ہوتا تھا اور کسی کیس میں عدالتی کارروائی کے دوران اس پر کسی مثبت یا منفی تبصرے کی کم ہی نوبت آتی تھی۔ اگر کوئی فریق یا فرد ’’جرأت رندانہ‘‘ کا مظاہرہ کرتا تو وہ عدالت کے ازخود اختیار کی بنیاد پر عدالتی کٹہرے میں کھڑا نظر آتا تھا مگر بدقسمتی سے موجودہ دور میں بالخصوص سیاسی نوعیت کے مقدمات میں اپوزیشن ہی نہیں‘ حکومت کی جانب سے بھی عدلیہ کو رگیدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
یہ بلاشبہ عدلیہ کی وسیع الظرفی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے موجودہ ادوار حکومت میں آئے روز اور قدم قدم پر عدالت کی کسی نہ کسی کارروائی پر انتہائی عامیانہ قسم کی تنقید سن کر اور دھمکی آمیز لہجے دیکھ کر بھی ماسوائے ڈاکٹر بابراعوان کے‘ کسی اور کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ کسی عدالتی حکم کی عدم تعمیل پر تو آئین و قانون کے تقاضے کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی عمل میں آتی رہتی ہے مگر کسی کیس کی کارروائی اور اس پر صادر ہونیوالے فیصلے کے بارے میں ناشائستہ گفتگو اور بلاسوچے سمجھے الزام تراشی کرنیوالوں کے ساتھ بھی عدلیہ نے بالعموم نرم رویہ اختیار کیا ہے۔ شاید اس ڈھیل کے باعث ہی عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے کلچر کو فروغ حاصل ہوتا رہا ہے جس میں بالخصوص تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور اس پارٹی کے دوسرے عہدیداروں کی جانب سے تنقید کا عامیانہ انداز اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ انہوں نے اپنے خلاف یا اپنے مخالف فریق کے حق میں کوئی فیصلہ صادر ہونے پر الیکشن کمیشن کو چھوڑا نہ عدلیہ کا لحاظ کیا اور فاضل ججوں کو عامیانہ الفاظ میں مخاطب کرنا اپنا حق سمجھ لیا۔ چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے جسٹس فخرالدین جی ابراہیم بھی ایسی عامیانہ تنقید سے نہیں بچ سکے تھے جس کے باعث کئی فاضل ریٹائرڈ جج چیف الیکشن کمشنر کے منصب پر فائز ہونے سے معذرت کرتے رہے۔ ایسی ہی درگت نیب اور چیئرمین نیب کی بھی بنتی رہی جبکہ سپریم کورٹ بھی تحریک انصاف کی ایسی عامیانہ تنقید کی زد سے نہ بچ سکی۔
پھر شومئی قسمت‘ پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا جس پر عمران خان اور دوسری اپوزیشن جماعتوںنے حکومت مخالف تحریک کا آغاز کیا تو پانامہ لیکس کی زد میں آنیوالے شریف خاندان اور حکمران مسلم لیگ (ن) نے بھی مخالفانہ فیصلوں کی فضا ہموار ہوتی دیکھ کر تحریک انصاف ہی کے انداز میں عدلیہ کو رگیدنے کی پالیسی طے کرلی جس کی ابتداء مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کی عدلیہ مخالف ایک جوشیلی تقریر اور دھمکی آمیز لہجے سے ہوئی۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے نہال ہاشمی کی تقریر کو ان کا ذاتی فعل قرار دیا اور ان کیخلاف انضباطی کارروائی کرکے انہیں پارٹی سے نکال بھی دیا گیا تاہم جب پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف اور انکے خاندان کے ارکان کی پیشیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو عدلیہ کے بارے میں ان کا لب و لہجہ بھی نہال ہاشمی والا ہی نظر آنے لگا جبکہ سپریم کورٹ سے میاں نوازشریف کی نااہلیت کے بعد تو حکمران مسلم لیگ (ن) کی تنقید کا سارا رخ ہی براہ راست عدلیہ کی جانب ہوگیا اور عدلیہ کی کارروائی اور فیصلوں کو اسٹیبلشمنٹ کی کسی سازش سے تعبیر کیا جانے لگا۔ اس حوالے سے میاں نوازشریف کا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ والا فقرہ تو زبانِ زدعام ہوگیا جسکے ملکی ہی نہیں‘ بیرونی میڈیا پر بھی چرچے ہوئے۔
اگر عدلیہ کے کسی فیصلے پر کوئی فریق مطمئن نہ ہو تو اسکے پاس اس فیصلے کیخلاف اپیلٹ کورٹ میں اپیل یا نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ شریف فیملی نے یہ آپشن بھی استعمال کیا اور عدلیہ پر پبلک فورمز‘ جلسوں اور میڈیا سے بات چیت کے دوران تنقید کے نشتر چلانا بھی ترک نہ کیا اور اس عمل میں خود میاں نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز پیش پیش رہیں جبکہ حکومتی وزراء اور مشیروں نے بھی عدلیہ پر تنقید کے نشتر چلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی پارٹی قیادت کی اس پالیسی کیخلاف ردعمل سامنے آنے لگا۔ اس معاملہ میں چودھری نثار علی خاں نے پارٹی قیادت کو سمجھانے کیلئے پیش رفت کی اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے بھی پارٹی قیادت کو اس جارحانہ پالیسی سے ہٹانے کی کوششوں کا آغاز کیا جبکہ وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ تو اس پالیسی کیخلاف خم ٹھونک کر میدان میں آگئے‘ مگر پارٹی قیادت کو اداروں سے ٹکرائو والی جارحانہ پالیسی سے ہٹانے کی کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی۔ اسی دوران نیب نے شریف فیملی کیخلاف حدیبیہ پیپر ملز کا ریفرنس بحال کرانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کی سماعت کے دوران کیس کے میرٹ پر شریف فیملی کو ریلیف ملنے کے واضح امکانات نظر آنے لگے۔ اس سے توقع کی جارہی تھی کہ شریف فیملی عدلیہ پر چڑھائی کی پالیسی پر نظرثانی کرلے گی مگر حکمران پارٹی کے قائد میاں نوازشریف اور انکی صاحبزادی کو جہاں بھی موقع ملا انہوں نے عدلیہ پر تنقید اور اداروں کے ساتھ محاذآرائی کی پالیسی کو ہی فروغ دیا۔ گزشتہ روز سوئے اتفاق سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر ملز کیس اور عمران خان و جہانگیر ترین اہلیت کیس کے فیصلے ایک ہی روز صادر ہوئے۔ عدالت عظمیٰ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب کا موقف مسترد کرتے ہوئے شریف فیملی کیخلاف یہ ریفرنس اس لئے بحال کرنے سے معذوری ظاہر کی کہ نیب کی یہ اپیل زائد المیعاد ہے جبکہ وہ دستاویز اپیل میں شامل ہی نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر یہ کیس تیار کیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ سے سیاسی اور قانونی طور پر دبائو میں آئی ہوئی شریف فیملی کو بلاشبہ بڑا ریلیف ملا اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اسی تناظر میں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کو سچائی کی فتح قرار دیا اور یقیناً اپنی پارٹی قیادت کو ہی یہ صائب مشورہ دیا کہ اب ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی سیاست چھوڑ کر اپنی توانائیاں ملک کیلئے وقف کردی جائیں۔ اس دوران عمران خان اور جہانگیر ترین کیخلاف مقدمات کا فیصلہ بھی سامنے آگیا جس کے تحت عمران خان نااہلیت سے بچ گئے اور جہانگیر ترین تاحیات نااہلیت کی زد میں آگئے تو بجائے اسکے کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کے فیصلہ پر اطمینان کا اظہار کیا جاتا‘ حکمران مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کے حق میں صادر ہونیوالے فیصلہ کو بنیاد بنا کر عدلیہ پر پھر چڑھائی شروع کردی اور مریم نواز نے عدلیہ پر تنقید کیلئے یہ نکتہ نکالا کہ متعلقہ بنچ کے ایک فاضل جج نے کیس کے فیصلہ میں الگ سے وضاحت کیوں دی ہے۔ انہوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس سے میاں نوازشریف سے ناانصافی ثابت ہوگئی ہے۔ عمران خان کیس کے فیصلہ کے حوالے سے ایسی ہی تنقید خواجہ سعدرفیق‘ مریم اورنگزیب اور عابدشیر علی کی جانب سے بھی سامنے آئی جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کے لیڈران نے حدیبیہ پیپر ملز کے کیس میں شریف فیملی کی بریت پر عدلیہ کو رگیدنے کا شوق پورا کیا جسے پروان چڑھتے بلیم گیم والے کلچر میں قومی سیاست اور اداروں کیلئے بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ روز عدلیہ کیخلاف صف آراء سیاست دانوں اور دوسرے متعلقین بشمول سیاسی تجزیہ نگاروں کو اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ عدلیہ پر دبائو ڈالنے یا فیصلوں کیلئے پلاننگ کرنے کی کسی میں جرأت نہیں جبکہ عدالت اپنے ضمیر اور قانون کے تقاضوں کے مطابق کسی کیس کا فیصلہ صادر کرتی ہے۔ اگر عدلیہ اپنی وسیع الظرفی کی بنیاد پر اپنے ازخود اختیارات بروئے کار نہیں لا رہی اور اس نے تنقید کے کلچر کے آگے قانونی طور پر بند نہیں باندھا تو اس سے یہ مراد نہیں کہ شتربے مہار ہو کر عدلیہ پر چڑھائی کا شوق پورا کیا جانے لگے۔ اگر حکمران جماعت اور اسکی قیادت ہی ایسے کلچر کو فروغ دیگی تو پھر کسی اور کو اس تنقیدی کلچر میں شامل ہونے سے کیسے روکا جا سکے گا۔ بے شک ریاستی اداروں کا تقدس ملحوظ خاطر رکھ کر ہی سسٹم کو مضبوط بنایا اور اس کیخلاف چور دروازے سے ہونیوالی محلاتی سازشوں کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر حکمران جماعت نے خود ہی اداروں پر چڑھائی کرکے سسٹم کو کمزور کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے تو پھر آئی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اس تناظر میں اگر اپنا اور پارٹی کا سیاسی مستقبل بچانا مقصود ہے تو پھر حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو شہبازشریف کے بقول ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی سیاست چھوڑ کر اپنی توانائیاں بہرصورت ملک کیلئے وقف کرنا ہونگی۔