تحریک پاکستان کے چیئرمین عمران خان نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا کہ اللہ سے ایک باری مانگ رہا ہوں، اس ایک باری میں کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا، ’’ان‘‘ سب کو پتہ ہے، میں آگیا تو یہ بچ نہیں سکیں گے۔
عمران خان اللہ سے زیادہ نہیں صرف ایک باری مانگ رہے ہیں۔ باری سے مراد ، اقتدار ہے۔ حالانکہ وہ تواتر سے کہتے رہتے ہیں کہ انہیں وزیراعظم بننے کا شوق نہیں اور اب وہ وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہئے کیونکہ ہر چیز یہاں تک کہ اقتدار و زوال اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، لیکن یقیناً ان کے علم میں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے حصول کا ایک طریقہ مقرر کر رکھا ہے جنہیں قوانین قدرت کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اقتدار کے حصول کا قانون قدرت ہے جمہوریت اور انتخابات۔ اگر وہ عوام کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو اقتدار مل جائے گا اور ان کی وزیراعظم بننے کی آرزو اور دعا قبول ہو جائے گی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آئین، جمہوریت اور عدلیہ کی موجودگی میں وزیراعظم اتنا بھی بااختیار نہیں ہوتا کہ جسے چاہے لٹکا دے، یا اسے صفحہ ہستی سے ہی مٹا دے۔ سزا دینے کے لئے جرم ثابت کرنا پڑتا ہے۔یقیناً آپ اور آپ کے بیشتر ساتھی آئین کی دفعات 62، 63 پر پورا اترتے ہوں گے ۔ صداقت و امانت کی شہرت رکھتے ہوں گے، لیکن سبھی ایسے نہیں ہوں گے۔ عمران خان یہ نہیں بتاتے کہ وزیراعظم بننے کے بعد ان سے کیا سلوک کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر قوم کو فرشتہ سیرت حکمران مل جائیں تو بیڑہ ہی پار ہو جائے، لیکن عوام جن کے ووٹوں سے اقتدار ملتا ہے وہ منتقم اور خیر خواہ اور مخلص میں فرق بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس لئے انتخابات میں اترنے سے پہلے رائے دہندگان کے اطمینان کے لئے اپنے اردگرد سے ایسے لوگوں کو چھانٹ باہر کریں جن کے دامن صاف نہیں، اللہ سے اقتدار مخالفین سے انتقام کی خاطر نہیں قوم کی بھلائی کے لئے طلب کیجئے۔ یقیناً کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ پھر اقتدار کو صرف ’’ان‘‘ کو نیست و نابود کرنے کی خواہش تک ہی محدود نہ رکھیں اور بھی بہت سے کام ہیں جن میں ملک کی تعمیر و ترقی سمیت غربت‘ جہالت اور بے روزگاری کا خاتمہ سرفہرست ہیں۔ ان کے لئے بھی اللہ سے باری مانگئے۔
بھارتی فوج میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان
ایک رپورٹ کے مطابق ذہنی تناؤ کے باعث بھارتی فوج میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر تین دن میں ایک اہلکار خودکشی کرنے لگا۔ خودکشی کرنے والے 80 فیصد فوجیوں کا تعلق بری فوج سے ہے۔ نیوی کے 12 اہلکاروں نے خود اپنی جان لے لی۔ یہ اعداد و شمار بھارتی وزارتِ دفاع نے جاری کئے ہیں جو کہ یکم جنوری 2014ء سے 31 مارچ 2017ء تک کے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں بڑی تعداد ان اہلکاروں کی تھی جو عرصہ دراز سے مقبوضہ کشمیر میں تعینات تھے۔فوجیوں میں خودکشی کا رجحان اُن ملکوں میں پایا جاتا ہے جہاں وہ اپنی حکومتوں کی طرف سے عوام پر ظلم و ستم پر مامور ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی فوجیوں میں بھی خودکشی کے واقعات عام ہیں۔ اسی طرح جب سوویت یونین نے، افغانستان پر یلغار کی، تو روسی فوجیوں کی خودکشیوں کی خبریں اکثر آیا کرتی تھیں۔ یہ درست ہے کہ ظالم حکمرانوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جو اپنی افواج کو نہتے عوام کی آزادی سلب کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جیساکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے جذبۂ حریت کو دبانے کے لئے سات لاکھ فوج متعین کر رکھی ہے۔ حقیقت میں ایسے حکمران تو انسانیت سے محروم ہوتے ہیں لیکن سارے فوجی ایسے نہیں ہوتے۔ جن میں تھوڑی سی بھی انسانیت ہوتی ہے وہ ذہنی امراض میں مبتلا ہو کر خودکشی کر لیتے ہیں۔ ذہنی امراض کا یہ سبب بتانا کہ خودکشی کرنے والے گھروں سے دوری یا موت کے خوف کے باعث زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ حقائق پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ کشمیر میں تو بھارتی فوج پیلٹ گنوں سے اندھا دھند فائرنگ کر کے نوجوانوں کو اندھا بنا رہی ہے۔ اب تک ہزاروں نوجوان بینائی سے محروم کئے جا چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے میڈیا اور باضمیر لوگ بھارتی فوج کی اس بربریت پر شدید احتجاج کر رہے ہیں۔
قائد ملت کی سیاسی زندگی سیاست دانوں
کے لئے مشعل راہ ہے
قائد ملت لیاقت علی خان بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی معتمد ساتھی اور تحریک پاکستان کے ہر اول دستے کے نامور رہنما تھے۔ آپ ایک اعلیٰ خاندانی اور پڑھے لکھے نواب تھے۔ اس کے باوجود آپ نے قیام پاکستان کے بعد یہاں آ کر اپنی ذاتی جائیداد کے عوض ایک دھیلا تک وصول نہیں کیا نہ کوئی پراپرٹی حاصل کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان تھے جنہیں بانی پاکستان کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل رہی۔ قیام پاکستان کے بعد آپ ملک کے پہلے وزیراعظم مقرر ہوئے۔ اس دوران آپ نے اس نوزائیدہ ملک کو درپیش مشکلات اور چیلنجز کا ڈٹ کر نہایت مہارت کے ساتھ مقابلہ کیا اور استحکام پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن پڑوس ملک بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان کے موقف کو پیش کیا۔ آپ کو پاک امریکہ تعلقات کا بانی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ آپ نے جس دلیری سے ملک کی قیادت کا حق ادا کیا وہ جلد ہی پاکستان دشمن عناصر کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ آپ نے قرارداد مقاصد کے نام پر ملک و قوم کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کروایا جسے بعد میں آئین کا حصہ بنایا گیا۔ وزارتی ریشہ دوانیوں اور سیاسی طالع آزماؤں نے غیر ملکی ایجنٹوں کے ساتھ ملکر لیاقت باغ راولپنڈی میں بھارت ایک افغانی کے ہاتھوں جلسہ عام کے دوران آپ کو گولی مار کر شہید کروا دیا۔ یوں قائداعظم کے بعد بانیان پاکستان کے دوسرے بڑے رہنما کو ملک و قوم سے چھین لیا گیا۔ ان کے قاتل کو موقع پر ہی ایک پولیس افسر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا یوں قاتلانہ سازش کے ثبوت بھی مٹا دیئے گئے اس کے بعد اس قتل کی تحقیقات کرنے والا افسر بھی تمام ثبوتوں کے ساتھ ایک طیارہ حادثہ میں لقمہ اجل بنا دیا گیا۔ آج تک پوری قوم کے سامنے قائد ملت کے قتل کے اسباب سامنے نہیں آ سکے۔ قائد کی شہادت کے بعد جو گھناؤنا سیاسی کھیل ہمارے ملک میں جاری ہوا وہ آج بھی جاری ہے اور اسکے بداثرات ابھی تک ختم نہیں ہو سکے۔ ان کی 66 ویں برسی پر ہمارے سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ ان کی سیاسی زندگی کو سامنے رکھ کر صاف ستھری سیاست پر عمل پیرا ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرنے کا عہد کریں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024