سینٹ میں پہلی حکومتی شکست‘ وزیراعظم کی ایوان میں موجودگی یقینی بنانے کی تحریک کثرتِ رائے سے منظور …… حکمران اس شکست کو خطرے کی گھنٹی سمجھیں اور اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں
حزب اختلاف کی عددی برتری کے باعث حکومت کو پیر کے روز ایوان بالا (سینٹ) میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وزیراعظم میاں نوازشریف کی سینٹ سے مسلسل غیرحاضری پر متحدہ قومی موومنٹ کی قواعد میں ترمیم کی تحریک کثرتِ رائے سے منظور کرلی گئی۔ اس ترمیم کے تحت وزیراعظم سینٹ کے اجلاس میں ہفتے میں کم از کم ایک دن شرکت کے پابند ہونگے۔ گزشتہ روز متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم کی سینٹ سے مسلسل غیرحاضری پر متحدہ کی ترامیم ایوان میں پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر واک آئوٹ کیا تاہم حکومتی ارکان انہیں منا کر واپس لے آئے۔ جب واک آئوٹ کرنیوالے اپوزیشن کے یہ ارکان ہائوس میں واپس آئے تو کرنل (ر) طاہر مشہدی نے ایم کیو ایم کی ترامیم پر مبنی تحریک ایوان میں پیش کر دی۔ اجلاس کی صدارت کرنیوالے سینٹ کے رکن صابر بلوچ نے اس تحریک پر گنتی کرائی تو اکثریتی ارکان نے اسکے حق میں ووٹ دیا۔ سینٹ کی اس کارروائی کے دوران مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سید ظفرعلی شاہ نے صابر بلوچ پر الزام عائد کیا کہ وہ ایوان کو قواعد کے برعکس چلا رہے ہیں اور ایوان کو بلڈوز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ کا لیڈر گزشتہ 22 سال سے باہر بیٹھا ہے اور نظام چل رہا ہے۔ اگر وزیراعظم ایوان میں نہیں آئینگے تو پھر بھی کام چل جائیگا۔
اگرچہ سینٹ کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کیلئے ابھی صرف ایم کیو ایم کی پیش کردہ تحریک منظور ہوئی ہے جس کی بنیاد پر اب ہائوس میں باضابطہ طور پر ترمیمی بل پیش کیا جائیگا اور اسکی منظوری کی صورت میں وزیراعظم سینٹ کے اجلاس کے دوران ہفتے میں کم از کم ایک دن ہائوس میں آنے کے پابند ہونگے۔ اپوزیشن یہ بل بھی سینٹ سے منظور کراپاتی ہے یا نہیں‘ یہ بعد کے مراحل ہیں تاہم اپوزیشن جماعتیں جس طرح ہائوس کے اندر اتحاد کا مظاہرہ کر رہی ہیں‘ کوئی بعید نہیں کہ وہ عددی اکثریت کی بنیاد پر ترمیمی بل بھی منظور کرانے میں کامیاب ہو جائیں اس لئے اس وقت اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک کا منظور ہو جانا بھی حکومت کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ سینٹ کے آئندہ اجلاسوں میں جہاں تحفظ پاکستان بل سمیت متعدد اہم مسودات قانون پیش ہونے ہیں‘ وہیں سینٹ کو بجٹ کی منظوری کے مراحل سے بھی گزرنا ہے۔ اگر ان مراحل میں بھی اپوزیشن کے ارکان سینٹ متحد رہے تو حکومت کو ایوان بالا میں نہ صرف سبکی اٹھانا پڑیگی بلکہ اپوزیشن کی عددی اکثریت کی موجودگی میں حکومت کے برقرار رہنے کا جواز بھی ختم ہو جائیگا۔
قوم اگر اپنے گوناں گوں مسائل کے حل اور اپنے شہری بنیادی حقوق کے حصول کیلئے انتخابات میں اپنے نمائندے منتخب کرکے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھجواتے ہیں جبکہ یہی نمائندے بعدازاں اپنی اپنی پارٹی کے فیصلہ کے مطابق سینٹ کے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں تو ایوان زیریں اور ایوان بالا کے ان تمام ارکان کی بنیادی ذمہ داری عوام کے دکھوں کا مداوا کرکے خود پر ان کا اعتماد قائم رکھنے کی ہوتی ہے۔ اگر عوام کے نمائندہ ان منتخب فورموں کے اجلاسوں میں‘ بالخصوص حکومتی ارکان اور لیڈران شریک نہ ہونے کو اپنا شعار بنالیں تو قواعد و ضوابط کے مطابق اجلاسوں کی کارروائی مکمل ہونے کے باوجود ان منتخب فورموں کی نمائندہ حیثیت کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور اگر خود وزیراعظم ہی سینٹ یا قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش نہیں ہونگے تو حکومتی ارکان کو بھی اجلاسوں سے غائب ہونے کا بہانہ ملتا رہے گا۔ اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان کو جن مقاصد کیلئے منتخب کرکے ایوانوں میں بھجوایا جاتا ہے‘ وہ ان سے ہر اجلاس میں شمولیت اور اجلاس کی کارروائی میں حصہ لینے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اس طرح منتخب ایوانوں کے اجلاس میں انکے ارکان کی شرکت ہی انکی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہے جس کیلئے وہ ٹی اے ڈی اے‘ رہائش کی سہولتیں‘ دوسرے الائونسز اور تنخواہیں وصول کرتے ہیں جبکہ انکی اجلاسوں میں شمولیت سے ہی انکی قومی اور عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جمہوری نظام کے حق میں دلائل بھی یہی دیئے جاتے ہیں کہ اس میں منتخب ایوانوں کے ذریعے عوام کو اپنے مسائل کے حل اور حقوق کے تحفظ کے ثمرات ملتے ہیں اور فرد واحد کی حکمرانی کی طرح منتخب جمہوری نظام میں حکومت کو قومی خواہشات بلڈوز کرنے کی جرأت نہیں ہوتی جبکہ ان ایوانوں کے ذریعے ہی عوام اپنے قائدین اور نمائندگان کی کارکردگی کو پرکھتے ہیں۔ اگر اس نظام میں بھی حکومتی اکابرین بالخصوص چیف ایگزیکٹو (وزیراعظم) سسٹم کو فرد واحد کی سوچ کے مطابق اپنی من مرضی سے چلانے کی کوشش کرینگے اور پارلیمنٹ کی شکل میں موجود منتخب اداروں کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں دینگے تو یہی وہ سوچ ہے جو منتخب اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھانے کی راہ ہموار کرتی ہے اور اس طرح غیرجمہوری عناصر کو منتخب جمہوری نظام کیخلاف اپنی سازشوں کے جال بچھانے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔
اگر سیاست دان بالخصوص حکمران دوسرے ریاستی اداروں پر پارلیمنٹ کے بالادست ہونے کے داعی ہوتے ہیں اور آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق یہ حقیقت بھی ہے تو پارلیمنٹ کے برتر ادارہ ہونے کی صورت میں اس کا تقدس برقرار رکھنا بھی پارلیمنٹیرین حضرات اور حکومتی پارٹی یا اتحادوں کی ذمہ داری ہے جبکہ پارلیمنٹ کا تقدس اسکے اجلاسوں میں شریک ہو کر اور اسکے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بناکر ہی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ مشرف کی جرنیلی آمریت کے سائے میں قائم اس دور کی پارلیمنٹ کے بارے میں یہی تاثر تھا کہ اسکی حیثیت محض ایک ربر سٹمپ کی ہے‘ جبکہ قومی داخلی اور خارجہ پالیسی سے متعلق تمام فیصلے پارلیمنٹ سے بالا بالا ہی کرلئے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں مشرف کی جانب سے امریکہ کے ساتھ کئے گئے فرنٹ لائن اتحادی کے معاہدے کا بطور مثال حوالہ دیا جاتا تھا جس کی مشرف نے پارلیمنٹ سے توثیق کرانے کی بھی کبھی ضرورت محسوس نہ کی۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت میں بھی کئی اہم ملکی قومی ایشوز پر حکمرانوں کے ہاتھوں پارلیمنٹ کے غیرموثر ہونے کا تاثر قائم اور مضبوط ہوا‘ جب نیٹو سپلائی بند کرنے سے دوبارہ کھولنے تک کسی بھی اہم معاملہ میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی جبکہ ڈرون حملوں کیخلاف پارلیمنٹ کی متفقہ طور پر منظور کی گئی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کی نوبت بھی نہ آنے دی گئی۔ چنانچہ اس تناظر میں بھی پیپلزپارٹی کو گزشتہ انتخابات میں عوام کے ہاتھوں سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
بدقسمتی سے آج بھی گیلپ سروے رپورٹوں میں وزیراعظم میاں نوازشریف کی مقبولیت اور انکی حکومت کی کارکردگی میں بہتری کی دل خوش کن تصویریں دکھائے جانے کے باوجود عوام اپنے مسائل کے حل کے معاملہ میں حکومتی کارکردگی پر مایوس اور مضطرب ہیں تو پھر جمہوریت مخالف سازشی عناصر اس عوامی اضطراب سے کیوں فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔ اس تناظر میں وزیراعظم نوازشریف کو سینٹ کی گزشتہ روز کی کارروائی سے خود ہی سبق حاصل کرنا چاہیے اور گیلپ سروے رپورٹوں میں نظر آنیوالی اپنی مقبولیت پر تکیہ کرکے نہیں بیٹھ جانا چاہیے‘ انہیں تو قومی اسمبلی اور سینٹ کے ہر اجلاس میں شمولیت کو اپنا شعار بنا کر ایسے کسی مسودۂ قانون کی تیاری کی نوبت ہی نہیں آنے دینی چاہیے تھی جس کے تحت انہیں سینٹ کے اجلاس میں ہفتے میں کم از کم ایک دن شمولیت کا پابند بنایا جائے۔ اگر انہیں سید ظفرعلی شاہ جیسے اپنے رطب اللسانوں کے ایسے دلائل پر ہی اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے کہ وزیراعظم ایوان میں نہیں آئینگے تو پھر بھی کام چل جائیگا تو انہیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ حکومتی امور تو منتخب حکومتوں اور اسمبلیوں کے بغیر بھی چلتے رہتے ہیں۔ پھر اسمبلیوں کے انتخابات کرانے اور منتخب جمہوری نظام کیلئے فکرمند رہنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم کو اپنی عزت کرانے کیلئے خود منتخب ایوانوں کو عزت دینا ہو گی اور اپنی حکومت اور پارٹی کی صفوں میں موجود کمزوریوں اور ڈسپلن کے فقدان پر قابو پانا ہو گا ورنہ انکے اقتدار کی ’’بوٹی‘‘ پر چھپٹا مارنے کی منصوبہ بندی کرنیوالے تو موقع کی تاک میں بیٹھے ہیں۔