ہماری لیگل ٹیم کو ٹھوس شہادتوں اور مواد کی بنیاد پر کلبھوشن کی سزا کا دفاع کرکے حکم امتناعی ختم کرانا چاہیے
کلبھوشن کیس میں پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جواب داخل اور وزیر توانائی کا چشم کشا اعتراف
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے معاملہ پر پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں داخل کرایا گیا جواب تمام متعلقہ اداروں‘ وزارت خارجہ اور ہیگ میں پاکستان کے سفارتخانہ نے مل کر تیار کیا ہے جس میں کلبھوشن کیخلاف چارج شیٹ کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے اٹارنی جنرل اشتراوصاف علی سارے معاملہ کی نگرانی کررہے ہیں۔ انکے بقول پاکستان نے اپنے جواب میں بھارتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ کلبھوشن نے پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اس لئے ایک دہشت گرد کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں نہیں چلایا جا سکتا۔ اسے پاکستان نے تمام عدالتی کارروائی اور اپنی صفائی کا بھرپور موقع دینے کے بعد سزا دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کلبھوشن کیخلاف تمام ثبوت بھی جواب میں شامل کئے گئے ہیں اور اس پورے عدالتی طریقہ کار سے بھی آگاہ کیا گیا ہے جس کے تحت کلبھوشن کو سزا دی گئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق جواب میں پاکستان کے موقف کو مؤثر اور جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ جواب گزشتہ روز دفتر خارجہ کی ڈائریکٹر فریحہ بگٹی نے عالمی عدالت انصاف میں جمع کرایا۔ اس کیس کی آئندہ سماعت میں پاکستان کے ایڈہاک جج مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی بھی عالمی عدالت انصاف کے بنچ کا حصہ ہونگے جو عالمی عدالتِ انصاف کی تاریخ میں دوسرے ایڈہاک اور تیسرے پاکستانی جج ہیں۔ دوسری جانب وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد لغاری نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت میں کم مقدمات جیتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس بدقسمتی سے عالمی ثالثی عدالتوں میں مقدمات لڑنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے یہ موقف گزشتہ روز پاکستان کی جانب سے آ ئی پی پیز کو ادائیگیاں کرنے سے متعلق تحریک التواء پر سینٹ میں بحث سمیٹتے ہوئے اختیار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی عدالت نے ہمیں آئی پی پیز کو 14‘ ارب روپے کی ادائیگیاں کرنے کا کہا ہے جبکہ آئی پی پیز کو ہماری کمزوریوں کے باعث ہی عالمی ثالثی عدالت میں کیس کرنے کا موقع ملا ہے۔
ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھارتی آبی جارحیت اور اسکی جانب سے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے یہاں پھیلائی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت موجود ہونے اور حقائق و شواہد سے ہمارے موقف کو تقویت ملنے کے باوجود ہم اپنی بے تدبیریوں‘ ناقص حکمت عملی اور سنگین معاملات پر بھی اختیار کی جانیوالی بے نیازی کے باعث بھارت کیخلاف اپنے پانی کے استحقاق کے حوالے سے عالمی بنک کی تشکیل کردہ ثالثی عدالت میں اکثر کیس ہار چکے ہیں جس کے باعث بھارت کو نہ صرف ہمارے حصے کے پانیوں پر سندھ طاس معاہدے کے برعکس ناجائز طور پر تعمیر کئے گئے ڈیمز کی تکمیل کا موقع ملا بلکہ ہماری کمزور دفاعی پوزیشن کے باعث بھارت کو من مانیوں کا بھی مزید موقع مل گیا اور اس نے بگلیہار اور کشن گنگا کے علاوہ دوسرے ڈیمز بھی دھڑا دھڑ تعمیر کرکے ہمارے حصے میں آنیوالا پانی روکنے کی مکمل منصوبہ بندی کرلی۔ یہ درحقیقت ہمارے منصوبہ سازوں اور متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت ہے کہ بھارت نے جب بگلیہار ڈیم کی تعمیر تقریباً مکمل کرلی تو ہمیں اس ڈیم کا ڈیزائن عالمی ثالثی کورٹ میں چیلنج کرنے کا خیال آیا۔ چنانچہ ہماری قانونی ٹیم کو اس کیس میں اس لئے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ عدالت کیلئے تعمیر شدہ ڈیم کو گرانے کا حکم دینا مشکل تھا۔ حد تو یہ ہے کہ اس ناکامی کے بعد بھی ہمارے متعلقہ آبی ماہرین اور قانونی ٹیم نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور بھارت کو اپنے حصے کے پانی پر مزید ڈیمز تعمیر کرنے سے روکنے کیلئے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی چنانچہ بھارت نے کشن گنگا اور دوسرے ڈیمز کی تعمیر پر بھی کام شروع کردیا۔ اسکے بعد ہمیں ثالثی کیلئے عالمی بنک سے رجوع کرنے کا خیال آیا چنانچہ عالمی بنک کو پھر بھارت کیخلاف حکم امتناعی جاری نہ کرنے کی سہولت مل گئی اور اس نے گیند ہماری جانب واپس پھینک دی کہ پہلے آپ باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے آبی تنازعات طے کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس میں ناکامی ہوتو پھر عالمی بنک ثالث کا تقرر کریگا۔ نتیجتاً آج بھارت پوری سہولت کے ساتھ ہم پر آبی دہشت گردی کے منصوبے تیار کرکے انہیں عملی جامہ پہنانے کی اعلانیہ کارروائیوں میں مصروف ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ ہم پاکستان کو پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کردینگے۔ جب ہمارے حکمرانوں نے سندھ طاس معاہدے میں تین دریا مکمل طور پر بھارت کے حوالے کرنا بھی منظور کرلیا اور باقیماندہ تین دریائوں پر پہلے ڈیمز تعمیر کرنے کے ملنے والے حق سے بھی استفادہ نہ کیا تو اسے ہمارے منصوبہ سازوں کی مجرمانہ غفلت سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بھارتی آبی دہشت گردی کیخلاف ہم نے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر کیس بھی تیار نہ کیا جس کا نتیجہ مکار دشمن کے مقابل ہماری ہزیمتوں کے سوا اور کیا برآمد ہوتا۔
توانائی کے وزیر سردار اویس لغاری نے اگرچہ تھرمل پاور کمپنیوں کے حوالے سے پاکستان کے پاس عالمی ثالثی عدالت میں کیس لڑنے کی صلاحیت موجود نہ ہونے کا تذکرہ کیا ہے جس کے باعث آئی پی پیز کو ہمارے توانائی کے محکمہ کیخلاف اربوں روپے کی وصولی کے کیس جیتنے کا موقع ملا ہے تاہم ہمارا یہ المیہ قومی مفادات اور ملکی سلامتی سے متعلق دوسرے معاملات تک بھی پھیلا ہوا ہے اور ہمیں اپنے دیرینہ دشمن بھارت کی سازشوں اور جارحانہ کارروائیوں کیخلاف مقدمات میں متعلقہ عالمی فورموں پر ناکامیوں اور ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آبی جارحیت پر مبنی بھارتی منصوبوں کیخلاف عالمی ثالثی عدالت سے دادرسی کیلئے ہم کمزور بنیادوں پر تیار کئے گئے اپنے کیس کے باعث ہی ناکام ہوئے جس میں سندھ طاس واٹر کونسل کے سابق چیئرمین سید جماعت علی شاہ کا بھی گھنائونا کردار شامل حال رہا ہے جنہوں نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ عالمی عدالت کے روبرو اپنے جواب میں موقف اختیار کیا تھاکہ بھارت کے ساتھ ہمارا پانی کا کوئی تنازعہ موجود ہی نہیں ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہماری صفوں میں موجود ایسی کالی بھیڑوں اور دشمن کے ایجنٹوں تک کیفرکردار کو پہنچانے کیلئے بھی کوئی مؤثر کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔
ہمیں درپیش ایسے حالات میں ہی آج بھارتی جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کیخلاف بھارت کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں دائر کئے گئے قطعی بے بنیاد کیس میں بھی ہمیںاپنے دفاع کیلئے مشکلات پیش آرہی ہیں اور عالمی عدالت انصاف کی جانب سے بھارت کے حق میں جاری کئے گئے حکم امتناعی کے باعث اب تک کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہو پایا۔ اگرچہ قانونی نظائر اور مروجہ عالمی قانونی تقاضوں کے تحت بھارت کو کلبھوشن کی سزا کیخلاف کیس عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا قطعاً استحقاق نہیں ہے کیونکہ جس سرزمین پر اس نے دہشت گردی کے گھنائونے جرائم کا ارتکاب کیا ہے‘ اس کیخلاف اسکے جرائم کے مقدمات بھی اسی سرزمین پر چلنے تھے جیسا کہ بھارت نے ممبئی دھماکوں میں ملوث ملزم اجمل قصاب کیخلاف پاکستانی باشندہ ہونے کا زہریلا پراپیگنڈا کرنے کے باوجود اپنے ہی ملک کی عدالت میں مقدمہ چلا کر اسے سزائے موت سنائی اور اسی طرح بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے مبینہ ملزم کشمیری حریت لیڈر افضل گورو کیخلاف بھی بھارت کی جیل کے اندر مقدمہ چلا کر سزائے موت دی گئی اور اس سزا پر عملدرآمد بھی کردیا گیا۔ اگر دہشت گردی کے ان مقدمات میں بھارتی عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزائوں کیخلاف پاکستان اور کشمیری تنظیموں نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع نہیں کیا تھا تو کلبھوشن کے پاکستان میں کئے گئے گھنائونے جرائم پر اسے ملنے والی سزائے موت کیخلاف بھارت کو عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا استحقاق کیسے حاصل ہوگیا۔ یہ کیس بلاشبہ عالمی عدالت انصاف کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا اور اب پاکستان کی طرف سے داخل کرائے گئے جواب میں یہی درست موقف اختیار کیا گیا ہے مگر بھارت کلبھوشن کی سزا کیخلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع تو کرچکا ہے اور اسکی سزا پر عملدرآمد رکوا بھی چکا ہے جس کا یقیناً ہماری متعلقہ لیگل ٹیم کی کمزوری کے باعث ہی بھارت کو موقع ملا ہے۔ ہماری مجرمانہ غفلت تو اس انتہاء درجے کی ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی طرف سے جج نامزد کرنے کے حاصل شدہ موقع سے بھی بروقت فائدہ نہ اٹھایا گیا چنانچہ عالمی عدالت انصاف کے بنچ میں پاکستان کی نمائندگی نہ کرنیوالا کوئی فاضل جج موجود نہ ہونے کے باعث بنچ کے متعصب ہندو رکن کو کلبھوشن کی سزا کیخلاف بھارتی کیس کی سماعت کرنے اور اسکے حق میں حکم امتناعی جاری کرنے کی سہولت مل گئی۔ اب اس کارروائی کے بعد پاکستانی جج کی حیثیت سے مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی کی عالمی عدالت انصاف میں نامزدگی عمل میں آئی ہے مگر اس سے پہلے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور بھارت ایک سراسر ناجائز کیس میں عالمی عدالت انصاف کے روبرو اپنے پائوں پر کھڑا ہوچکا ہے۔ اگرخدانخواستہ ہم اس کیس میں بھی سرخرو نہ ہوئے تو ہمارے لئے اس سے بڑی ہزیمت اور کیا ہوگی۔
بھارت تو بلوچستان میں ’’را‘‘ کا دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلانے اور اسکے ماتحت دہشت گردی کی سفاکانہ وارداتیں کرنیوالے دہشت گرد کلبھوشن کو اپنا بیٹا قرار دے کر اسے ہر صورت سزائے موت سے بچانے اور اپنے ملک واپس لانے کی تیاریاں مکمل کئے بیٹھا ہے اور عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ اس کا کیس بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے اس لئے ہمیں اس کیس کو اپنی سلامتی کیخلاف بھارتی سازشیں ناکام بنانے کیلئے ٹیسٹ کیس سمجھ کر مضبوط قانونی بنیادوں پر لڑنا اور عالمی عدالت انصاف کے روبرو اپنا دفاع کرنا ہوگا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے بقول اٹارنی جنرل اشتراوصاف علی خان کی سربراہی میں پاکستان کی لیگل ٹیم اس کیس کی مکمل تیاری کرچکی ہے جس میں کلبھوشن کے جرائم کیخلاف دستیاب ٹھوس شہادتوں اور مواد کو بھی بروئے کار لایا جارہا ہے۔ خدا کرے کہ ہمیں اس کیس میں کامرانی حاصل ہو اور ہماری لیگل ٹیم ٹھوس دلائل کی بنیاد پر کلبھوشن کی سزا کیخلاف جاری حکم امتناعی ختم کرانے میں کامیاب ہو جائے۔ اگر معاملہ اسکے برعکس ہوا تو عالمی فورموں پر بھارت کو ہم پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کا مزید موقع مل جائیگا۔ اگر ہم بھارتی دہشت گردی کا نشانہ بن کر اوراسکے ہاتھوں بھاری نقصانات اٹھا کر بھی عالمی فورموں پر اسکے جرائم ثابت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو کوئی غیبی طاقت آکر ہمیں دشمن پر غلبہ نہیں دلوائے گی۔ ہمارے عالی دماغوں کو کم از کم کلبھوشن کے کیس میں تو پاکستان کیلئے ہزیمتوں کا اہتمام نہیں ہونے دینا چاہیے۔