زینبکے ساتھ ہونے والی بربریت سامنے آئی تو مقامی لوگوں کا اشتعال عروج پر تھا۔ دو دن جلائوگھیرائو ہوتا رہا۔ پورا ملک اور جہاں جہاں یہ خبر پہنچی لوگ ایک سکتے اور سکوت کی کیفیت میں تھے۔ پتھر دل بھی اس سفاکیت پر پگھل گئے ہوں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے درست کہا کہ اس واقعہ نے سرشرم سے جھکا دئیے۔ اس قیامت خیز سانحے پر بھی ایسے واقعات کا تسلسل جاری ہے۔ بھلوال میں ایسا واقعہ ہوا، کراچی میں سکول کے چوکیدار نے کمسن بچی سے منہ کالا کرنے کی کوشش کی۔ پتوکی میں گیارہ سالہ طالب علم کی نعش کھیتوں سے برآمد ہوئی۔ایسے بے شمار کیسز رپورٹ نہ ہونے کے باعث میڈیا اور معاشرے کے سامنے نہیں آتے۔ ایسے معاملات میں سب سے زیادہ ذمہ دار متعلقہ ادارے ہیں جن میں پولیس سرِفہرست ہے جس کے کچھ افسر اور اہلکار مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز آئی جی کی طرف سے چیف جسٹس کو جو انکوائری رپورٹ پیش کی گئی اس سے لگتا ہے کہ ہماری پولیس سکاٹ لینڈ یارڈ سے بھی زیادہ اہل، فعال فرشتہ صفت اور پیشہ وارانہ مہارت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی مگر عملاً کیا ہوا۔ لاش حوالے کرنے کے بھی دام مانگتی ہے۔ ڈی پی او کو لاش سے بدبو آتی ہے۔ فوٹیج کے باوجود قاتل غائب ہے اور اب تک گرفتار نہیں ہوسکا۔ ایسے بہیمانہ واقعات کا تدارک کڑی سزائوں سے ہو سکتا ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں پپو نامی بچے کو اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا۔ قاتلوں کو کیمپ جیل لاہور کے سامنے کرین کے ساتھ سرِعام پھانسی دیکر لاشیں دن بھر لٹکتی رہنے دی گئیں۔ اسکے بعد کئی سال اغوا کی واردات نہیں ہوئی۔ زینب کے قاتل کو بھی ایسی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کیلئے نشانِ عبرت بنانے کی خاطر سرعام پھانسی دی جائے اور بچوں کے ساتھ جرائم میں سرِ عام پھانسی کا قانون وضع کرلیا جائے۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024