انٹر بینک مارکیٹ میں ہفتے کے پہلے روز پیر کو ٹریڈنگ کے آغاز پر ڈالر 3روپے مہنگا ہو کر 110روپے کا ہوگیا تاہم اس کے بعد کاروبار کے دوران اُتار چڑھائو جاری رہا، اور کاروبار کے اختتام پر ڈالر کی قیمت 108روپے 42پیسے تک آ گئی جو کہ گزشتہ چار سال کے دوران انٹر بنک مارکیٹ کی بلند ترین سطح ہے۔
ڈالر کی قیمت میں اُتار چڑھائو معیشت کیلئے سخت نقصان دہ ہے، اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو معیشت خطرے میں رہے گی۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ روپے کی قدر میں کمی کے باعث، پٹرول، بجلی، ملک میں تیار ہونے والی گاڑیاں اور درآمدی اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔ ظاہر ہے کہ اس مہنگائی کی براہ راست زد عام صارف پر پڑے گی۔ دو تین روز قبل بھی ایسا ہی ہوا تھا جب ڈالر کی قیمت 110روپے تک پہنچ کر 107روپے پر آ گئی تھی یعنی ایک گھنٹے میں تین روپے کا اضافہ ہوا، جس سے پوری مارکیٹ، خریدو فروخت اور لین دین کا سارا نظام متاثر ہوا، عجیب بات یہ ہے کہ اس کی وجہ بھی کسی کو معلوم نہیں تھی۔ ماہرین اقتصادیات اپنی جگہ حیران تھے کہ ایسا تو کچھ نہیں ہوا جسے روپے کی قدر پر منفی اثر کی وجہ قرار دیا جائے، البتہ ایک رائے یہ تھی کہ بعض پراسرار ہاتھ یا سٹے باز قومی معیشت سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ اس دفعہ کرنسی ڈیلرز کا خیال ہے کہ حکومت باقاعدہ اعلان کئے بغیر مارکیٹ رحجانات کے نام پر روپے کی قدر میں کمی کر رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف بھی حکومت پر دبائو ڈال رہا ہے کہ روپے کی قدر میں فوری طورپر کم از کم 6فیصد کمی کی جائے۔ پراسرار ہاتھ سٹے باز، یا آئی ایم ایف اس لئے سرگرم ہے کہ ہماری فنانس پالیسی کمزور ہے اور سٹیٹ بنک واضح مالی پالیسی اختیار نہیں کر رہا۔ بہرحال جو بھی صورت حال ہے افسوسناک ہے۔ سٹیٹ بینک کو روپے کی قدر مستحکم کرنے کیلئے سنجیدگی سے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں، مہنگائی بڑھی، تو بہت کچھ مہنگا ہونے کے علاوہ زیر تکمیل منصوبوں کی تعمیری لاگت بڑھ جائے گی، جس سے قومی بجٹ متاثر ہوگا، اس کے علاوہ عام آدمی کیلئے زندگی گزارنا مشکل ہو جائیگا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024