وزیراعظم کا جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دینے کا عزم اور میاں نوازشریف کا اگلے سفر کے لئے لاہور میں پڑاﺅ
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیں گے۔ نوازشریف قوم کی آواز ہیں۔ 2018ءمیں مسلم لیگ (ن) عوامی عدالت میں سرخرو ہوگی۔جمہوریت کی بقاءو استحکام کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ گزشتہ روز بزرگ مسلم لیگی رہنما مرشد شاہین گورایا مرشدی مرحوم کے صاحبزادے احمد عمران نقشبندی اور ارکان قومی اسمبلی سے ملاقاتوں کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت نوازشریف کی پالیسیوں اور منصوبوں کو پایہ¿ تکمیل کو پہنچائے گی۔ علاقائی امن کے لئے آئین و قانون کی بالادستی ہر صورت برقرار رکھی جائیگی۔ سی پیک منصوبہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں معاون ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 20 کروڑ عوام جمہوریت کی بقاءاور آبیاری چاہتے ہیں۔کراچی میں امن کی بحالی کا کریڈٹ میاں نوازشریف کو جاتا ہے۔ کراچی کے عوام کو کسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 70 سال سے مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود وطن عزیز نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ نیوکلیئر کے شعبے میں ہماری مہارت اور کارکردگی کو دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے مگر افسوس کہ سیاسی نظام کو یہاں مستحکم نہیں ہونے دیا جاتا۔ ان کے بقول اب ملک کے عوام سیاسی نظام کو کمزور کرنے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کی اصل روح جمہوریت کی بقاءو سلامتی اور عوام کا تحفظ ہم نے مقدم رکھنا ہے۔
بانی ¿ پاکستان قائداعظم کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں اور قومی شاعر علامہ اقبال کے وژن کے مطابق تشکیل پانے والے ملک خداداد پاکستان کے قیام کو کل 14 اگست کو 70 سال پورے ہورہے ہیں ۔جس پس منظر اور جن حالات میں اس ارض وطن کی تشکیل کی ضرورت محسوس کی گئی وہ تحریک پاکستان کی عظیم جدوجہد کی صورت میں تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ جن مقاصد کے تحت برصغیر کے مسلمانوں نے اقبال و قائد کی قیادت میں اپنے لئے الگ خطہ¿ ارضی کی ضرورت محسوس کی تھی وہ قیام پاکستان کے 70 سال بعد بھی پورے نہیں ہوپائے اور یہاں سسٹم کے استحکام پر آج بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے جبکہ انگریز کی غلامی اور اس کے پٹھو ہندو کے اقتصادی استحصال کے شکنجے سے 70 سال قبل آزادی حاصل کرنے والے اس خطہ کے عوام تو بالادست طبقات کے ہاتھوں آج بھی اسی طرح اقتصادی استحصال کا شکار ہیں جن کا یہاں مذہبی آزادی کا خواب پورا ہوسکا نہ اقتصادی خوشحالی ان کا مقدر بن سکی جبکہ انگریزاور ہندو کے ٹوڈی استحصالی طبقات نے یہاں سلطانی¿ جمہور کو بھی نہیںپنپنے دیا۔ اس طرح اقبال و قائد کے پاکستان میں وہ مقاصد کبھی رو بہ عمل ہی نہیں ہوپائے‘ جن کے حصول کے لئے بانیان پاکستان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے الگ اورآزاد و خودمختار ملک کے لئے متحرک کیا تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بانی ¿ پاکستان حضرت قائد اعظم کی قیادت میں ایک پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعہ تشکیل پانے والے اس ملک خداداد میں جمہوریت کی عملداری ہوگی تو قیام پاکستان کے مقاصد پورے ہوپائیں گے مگر بدقسمتی سے یہاں جمہوریت کی حقیقی عملداری اور آئین و قانون کی حکمرانی کا خواب آج بھی ادھورا ہے اور آج پھر جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق نظر آتے ہیں، اس کے لئے یقیناً آج قائد و اقبال کی مسلم لیگ کے خود کو جانشین کہلانے والے لیڈران کو سوچنا اور جوابدہ ہونا ہے کہ وہ مستحکم اور خوشحال پاکستان کے لئے کس حد تک کردار ادا کر پائے ہیں اور یہاں سسٹم کے استحکام کے لئے انہوں نے خود کتنا تردد کیا ہے۔ اس ملک خداداد کا یہی المیہ ہے کہ مفاد پرست سیاستدانوں نے بانی¿ پاکستان قائد اعظم کی وفات کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی یہاں جمہوریت کے خلاف محلاتی سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا اور قیام پاکستان کے بعد آٹھ سال تک یہاں کسی وزیراعظم کو ٹکنے دیا نہ آئین کی تشکیل ممکن ہونے دی چنانچہ پاکستان کے سسٹم میں در آنے والی یہ کمزوری آج بھی سسٹم کے درپے نظر آتی ہے جسے چار جرنیلی آمروں نے یکے بعد دیگرے اپنے ماورائے آئین اقدامات کے جھٹکے لگائے اور وطن عزیز کے 32 سال ضائع کردئیے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ ہمارے مفاد پرست سیاستدان ہی ماورائے آئین اقدامات کے لئے ان جرنیلی آمروں کو اپنا کندھا پیش کرتے رہے ہیں ۔
سابق وزرائے اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے اس تلخ حقیقت کا ادراک کرکے ہی اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر میثاق جمہوریت طے کیا تھا جس میں عہد کیا گیا کہ آئندہ اپنے سیاسی مخالفین کی حکومت گرانے کے لئے میثاق جمہوریت کرنے والی کوئی جماعت کسی جرنیلی آمر کی معاون نہیں بنے گی۔ میاں نوازشریف نے اس میثاق جمہوریت کی ہی پاسداری کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے سابقہ دور میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور اس حکومت کی خراب کارکردگی کے باعث طالع آزماﺅں کے ماورائے آئین اقدام کے لئے مواقع موجود ہونے کے باوجود اس حکومت اور اسمبلی کی میعاد پوری ہونے دی۔ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ اقتدار میں بدقسمتی سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی شکل میں ایسی اپوزیشن غالب آگئی جس کا میثاق جمہوریت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا جبکہ ان کے دل میں جیسے تیسے اقتدار کی منزل حاصل کرنے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ چنانچہ مسلم لیگ (ن) کو اپنے اقتدار کے آغاز ہی سے سسٹم کو اتھل پتھل کرنے کا ایجنڈہ رکھنے والی اس اپوزیشن سے پالا پڑ گیا جس نے ہر ایشو پر مزاحمت ، دھرنوں اور گھیراﺅ جلاﺅ کی متشدد سیاست کا راستہ اختیار کرکے آج کے دن تک سسٹم کو استحکام اور عوام کو سکون نصیب نہیں ہونے دیا۔ پہلے انتخابی دھاندلیوں کا ایشو ان کے ہاتھ آیا جس کو لے کر وہ تین سال تک سڑکوں پر شور شرابا کرتے رہے اور اسلام آباد کے لاک ڈاﺅن کی نوبت لاتے رہے جس کے بعد پانامہ لیکس کا ایشو انہیں کسی نعمتِ غیر مترقبہ کی صورت میں دستیاب ہوگیا۔ بدقسمتی سے اس ایشو پر حکمران مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے بھی فاﺅل کھیلنا شروع کردیا اور پانامہ کیس کے فیصلہ کے تحت میاں نوازشریف کے بطور پارلیمنٹیرین نااہل قرار پانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کا یہی فاﺅل کھیل اب سسٹم کے لئے سنگین خطرات کا باعث بنتا نظر آرہا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تحفظات کے اظہار کا یقینا میاں نوازشریف ، ان کے خاندان کے ارکان اور ان کی پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں کو حق حاصل ہے اور اس فیصلہ پر نظر ثانی کے لئے ان کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا استحقاق بھی موجود ہے تاہم میاں نوازشریف نے پانامہ کیس کی عدالتی کارروائی میں شریک ہونے اور کیس کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کے باوجود سڑکوں پر مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور ایک بڑے کارواں کی شکل میں اسلام آباد سے لاہور تک کا بذریعہ جی ٹی روڈ رخت سفر باندھتے ہوئے انہوں نے جس انداز میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا اس سے ملک کے اداروں کے ساتھ ٹکراﺅ کی فضا پیدا ہونا فطری امر تھا۔
اس وقت جبکہ آئندہ انتخابات کے لئے صرف دس ماہ کا فاصلہ باقی رہ گیا ہے۔ میاں نوازشریف کو ان انتخابات میں اپنی پارٹی کو مربوط انتخابی مہم کے ذریعہ سرخرو کرانے کی سیاسی حکمت عملی طے کرنی چاہیے جس کے لئے انہیں عوام کے پاس جانے کا حق بھی حاصل ہے مگر وہ تو بطور خاص سپریم کورٹ کو اپنی تنقید کے نشانہ پر رکھ کر بادی النظر میں سسٹم کی بساط الٹانے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے راہ ہموار کرتے نظر آرہے ہیں۔ اگر ان کی اس ساری حکمت عملی کا مقصد ”میں نہیں تو کوئی بھی نہیں“ والا ہے تو یہ الگ بات ہے ورنہ تو انہیں مسلم لیگ (ن) کے قائد کی حیثیت سے سسٹم کے محافظ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے اسلام آباد سے لاہور تک ایک ریلی کی شکل میں اپناسفر چار دن میں طے کیا ہے جس کے بعد بھی وہ اپنی اس مزاحمتی سیاست پر کاربند رہنے کا عزم ظاہر کررہے ہیں۔ اگر وہ اسی لب و لہجے کے ساتھ لاہور سے اپنی اگلی منزل کی جانب گامزن ہوگئے جو ممکنہ طور پر کراچی کی ہوسکتی ہے تو پھر اس سیاست کے ساتھ جمہوریت کے استحکام کا سفر شاید ہی طے ہو سکے گا، جبکہ اس سیاست کا نقصان ان کی پارٹی کو بھی اٹھانا پڑے گا جو آج بھی ملک کی حکمران جماعت ہے۔
یہی وہ فکر مندی ہے جس کا اظہار چیئرمین سینٹ رضا ربانی خاں گزشتہ دو ہفتے سے تواتر کے ساتھ کررہے ہیں اور اس کے لئے میاں نوازشریف کی پارٹی کے اندر سے بھی تفکرات میں ڈوبی آوازیں اٹھ رہی ہیں جن میں سابق وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی توانا آواز بھی شامل ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم خاقان عباسی کا جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہ اترنے دینے کا عزم تبھی کارگر ہوگا جب حکمران مسلم (ن) کی قیادت بھی اس معاملہ میں یکسو ہوگی، اگر میاں نوازشریف کی اداروں کے ساتھ ٹکراﺅ کی فضا بنانے والی سیاست میں امن وامان کیلئے خطرات پیدا ہوں گے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ امن اور قانون کی حکمرانی ہر قیمت پر بحال کرنے کا عزم ظاہر کرتے نظر آئیں گے تو اس کشمکش میں جمہوریت کی عملداری کے کہیں بیچ میں ہی گم ہوجانے کی فضا استوار ہوسکتی ہے ۔ اس لئے آج سسٹم کو بچائے رکھنا میاں نوازشریف کے لئے ہی بڑا امتحان ہے۔ وہ اپنی حکومت اور اسمبلی کی آئینی میعاد پوری ہونے کا موقع فراہم کرکے اس امتحان میں سرخرو ہوسکتے ہیں جس کی بنیادپر یقینا جمہوریت کی گاڑی بھی ٹریک پر ہی رہے گی، قوم توقع رکھتی ہے کہ قیام پاکستان کے 70 سال پورے ہونے پر کل 14 اگست کو میاں نوازشریف مسلم لیگ(ن) کے قائد کی حیثیت سے اپنی سیاست کی سمت سسٹم کے استحکام کی جانب متعین کرنے کی قوم کو خوشخبری سنائیں گے ۔ بصورت دیگر سسٹم کا استحکام ،قوم کے لئے شرمندہ¿ تعبیر نہ ہونے والا خواب ہی بنا رہے گا۔