آئی بی چیف کا ملک میں داعش کی موجودگی اور آرمی چیف کا دہشتگردی کی جنگ پیچیدہ ہونے کا اعتراف
وفاقی حکومت کے ماتحت انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سربراہ آفتاب سلطان نے پاکستان میں دہشت گرد تنظیم داعش کی موجودگی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں آٹھ سے دس سال تک جاگتے رہنا ہوگا کیونکہ جنرل ضیاءالحق کے دور سے بعد کی دو نسلوں تک کے ذہن بدلے گئے ہیں اور اب ان ذہنوں کو بدلنے میں وقت لگے گا۔ گزشتہ روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی تنظیم کا نیٹ ورک موجود ہے جس کیخلاف مو¿ثر کارروائی کرتے ہوئے اس کا بڑی حد تک خاتمہ کردیا گیا ہے تاہم دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مائنڈسیٹ بدلنا ہوگا جس میں آٹھ دس سال لگیں گے۔ انکے بقول بعض مذہبی جماعتیں اور فرقہ ورانہ تنظیمیں دولت اسلامیہ کی سوچ کی حمایت کرتی ہیں جبکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان بھی اس تنظیم کی حامی ہے تاہم افغانستان میں ایسا نہیں ہے کیونکہ تحریک طالبان افغانستان میں کوئی غیرملکی باشندہ شامل نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تمام شدت پسند تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں تاہم جنداللہ گروپ اب بہت کمزور پڑ چکا ہے۔ انکے بقول انٹیلی جنس بیورو نے پاکستان سے داعش کا نیٹ ورک پکڑکر دس سے زائد حملوں میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا ہے جبکہ کالعدم لشکر جھنگوی‘ سپاہ صحابہ اور تحریک طالبان پاکستان کے آپس میں رابطے ہیں۔ ڈیلی دی نیشن کی خصوصی رپورٹ کے مطابق ڈی جی آئی بی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سینکڑوں پاکستانی جنگجو شام میں داعش کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ داعش کے کئی کارکن پنجاب بھی پہنچ گئے ہیں تاہم اپریشن ضرب عضب کے باعث دہشت گردوں کے پاﺅں اکھڑ رہے ہیں۔
اس خطہ میں مذہبی انتہاءپسند تنظیموں اور انکے ماتحت دہشت گردی کے فروغ میں بلاشبہ مذہبی فروعی اختلافات اور ملک کے اقتصادی حالات کا بھی عمل دخل ہے تاہم شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کو بیرون ملک سے بھی فنڈنگ‘ تربیت اور سرپرستی حاصل ہوتی رہی ہے جن میں بعض مسلم ممالک کا زیادہ حصہ ہے جبکہ مذہبی انتہاءپسندوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی روایت امریکہ نے ڈالی جس نے 70ءکی دہائی میں افغانستان کے مذہبی انتہاءپسندوں کو مجاہدین کا لقب دے کر سوویت یونین کیخلاف سردجنگ میں استعمال کیا اور ہمارے اس وقت کے جرنیلی آمر ضیاءالحق بھی امریکہ کے ہاتھوں اسی مقصد کیلئے استعمال ہوئے چنانچہ انکی وساطت سے ہی امریکی سرپرستی میں یہاں کلاشنکوف کلچر کو فروغ حاصل ہوا اور مذہبی انتہاءپسندوں میں پیسے کی ریل پیل ہوئی جبکہ امریکہ نے سرد جنگ کے نتیجہ میں سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد مجاہدین کی سرپرستی سے ہاتھ کھنیچ لیا اور انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا جس کے باعث مذہبی انتہاءپسندوں نے اپنی مالی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے انتہاءپسند تنظیمیں تشکیل دینا شروع کر دیں۔ القاعدہ اور طالبان کا قیام بھی امریکی مفاداتی پالیسیوں کا ہی شاخسانہ ہے جس کا سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی موجودہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن اپنے ایک لیکچر میں اعتراف بھی کرچکی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی نائن الیون سے پہلے القاعدہ اور طالبان کو امریکی سرپرستی ہی حاصل تھی تاہم نائن الیون کے بعد امریکہ کی آنکھ کھلی اور اس نے القاعدہ اور طالبان کو اپنا دشمن قرار دے کر نیٹو فورسز کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر افغان جنگ کا آغاز کیا جس میں پاکستان کی کمبختی بھی اسکے جرنیلی آمر پرویز مشرف کے پاکستان کو اس جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی بنانے سے آئی۔ امریکہ تو اس جنگ میں ہمارے خطہ کو مذہبی انتہاءپسندی کے ذریعہ منتشر کرنے کے مقاصد پورے کر چکا ہے مگر یہ انتہاءپسندی مستقل طور پر ہمارے گلے پڑ گئی ہے جس کی بنیاد پر اقوام عالم میں ہم پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام بھی لگتا ہے جبکہ مذہبی انتہاءپسندی کے فروغ سے ہمارا معاشرہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور معاشی عدم استحکام سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا تو اپنے حالات سے مایوس ہونیوالے نوجوانوں کو اپنے جنونی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیلئے شدت پسند اور دہشت گرد تنظیموں کو بھی موقع حاصل ہوگیا جو پہلے ہی بیرونی فنڈنگ اور سرپرستی میں یہاں فرقہ واریت اور دہشت گردی کو فروغ دینے میں سرگرم عمل تھیں۔ اگر دہشت گردوں کو نکیل ڈالنا ہی امریکہ اور اسکے اتحادی نیٹو ممالک کا مطمع نظر ہوتا تو وہ افغان جنگ کو ادھورا چھوڑ کر کبھی واپس نہ جاتے جبکہ عرب ریاستوں کی بادشاہتوں کیخلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں میں بھی اپنے مقاصد پورے کرنے کیلئے امریکہ نے عراق کے مذہبی انتہاءپسندوں کو ترغیب دے کر انہیں مسلم ممالک میں دولت اسلامیہ کی تشکیل کی راہ پر لگایا۔ چنانچہ امریکی سرپرستی میں قائم ہونیوالی آئی ایس آئی ایس (داعش) آج اپنے وسیع تر نیٹ ورک کے باعث دہشت و وحشت کی علامت بن کر اس خطہ ہی نہیں‘ پوری دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی ہر بلا ہمارے گلے پڑ جاتی ہے حالانکہ دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں اب تک جتنی بے بہا جانی اور مالی قربانیاں ہم دے چکے ہیں‘ اتنی تمام نیٹو ممالک نے 12 سال کی پوری افغان جنگ کے دوران نہیں دی ہونگی۔
بے شک دوسری انتہاءپسند تنظیموں کی طرح ”داعش“ بھی امریکی سرپرستی میں قائم ہوئی ہے تاہم اب ہماری سرزمین پر بھی اسکے نیٹ ورک کی موجودگی ایک حقیقت ہے جس سے انکار کرکے علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرہ بننے والے اس فتنے سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت جبکہ پنجاب کے متعدد شہروں میں بعض مذہبی انتہاءپسند گروپوں کے داعش سے روابط اور دہشت گردی کی بعض وارداتوں میں اسکے ملوث ہونے کی بھی تصدیق ہو چکی ہے جیسا کہ آئی بی چیف نے صفورا گوٹھ کراچی کی دہشت گردی میں داعش کے ملوث ہونے کا عندیہ دیا ہے تو اس تنظیم کو پھلنے پھولنے کا موقع ملنے سے پہلے ہی جڑ سے اکھاڑنا ہماری ترجیح اول ہونی چاہیے۔ اس سے قبل سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے نہ جانے کس حکمت عملی کے تحت پاکستان میں داعش کے وجود سے انکار کیا جاتا رہا ہے جبکہ جامعہ حفصہ اسلام آباد کی طالبات کے داعش کے ساتھ روابط کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی تھی۔ آج آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر مو¿ثر کارروائیوں کے باوجود اس امر کا اعتراف کررہے ہیں کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ بہت پیچیدہ ہے جس میں کامیابی کیلئے ٹھوس حکمت عملی اور قوم کے متفقہ ردعمل کی ضرورت ہے تو اس سے داعش سمیت یہاں مختلف دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک مضبوط اور فعال ہونے کا ہی عندیہ مل رہا ہے۔ ہمیں ملک کے مستقبل کو دہشت گردی سے لاحق خطرات ٹالنے کیلئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے بجائے عملیت پسندی پر مبنی پالیسیاں مرتب کرنا ہونگی اور بالخصوص داعش کا یہاں سے نیٹ ورک توڑنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں یقیناً مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے جس کیلئے مختلف مکاتب فکر کے جید علماءکرام کی معاونت سے مذہبی ہم آہنگی کا چارٹر تیار کراکے اس پر مربوط انداز میں عملدرآمد کرانا ضروری ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ پیغام اسلام کانفرنس میں مختلف اسلامی ممالک کے قائدین اور ملک بھر کے پانچ ہزار سے زائد علماءکرام نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں ”داعش“ کو خوارج قرار دے کر مذہبی انتہاءپسندی کیخلاف بھرپور جدوجہد کا عزم ظاہر کیا ہے تو داعش اور دوسری مذہبی انتہاءپسند تنظیموں کے دین اسلام کے حوالے سے مجہول پروپیگنڈے کے توڑ کیلئے ان علماءکرام کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ نوجوان نسل میں ان انتہاءپسند تنظیموں کے ڈھالے گئے ذہن تبدیل کرنے کیلئے یقیناً وقت لگے گا جبکہ اس کیلئے عوام کی اقتصادی پسماندگی دور کرنے کے اقدامات بھی اٹھانے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل کیلئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے اقتصادی حالات کے باعث انتہاءپسند تنظیموں کی جانب سے دی جانیوالی ترغیبات سے متاثر نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں حکومتی ریاستی اتھارٹی‘ سکیورٹی کے ریاستی اداروں اور مجموعی طور پر پوری قوم کے مذہبی انتہاءپسندی کیخلاف یکسو ہونے اور انکے انتہاءپسندانہ نظریات کو اجتماعی قوت بروئے کار لا کر مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ میں اب کسی لگی لپٹی سے کام نہیں لینا چاہیے‘ بصورت دیگر داعش کا پھیلتا ہوا نیٹ ورک ہماری سلامتی کیخلاف ایک نئے محاذ کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔