کشمیر و فلسطین کی بھرپور ترجمانی پر امریکہ کی پاکستان کو وارننگ اور ’’محفوظ‘‘ کھیلنے کی ہدایت
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیاء کے خطہ میں سب سے بڑا مسئلہ جموں و کشمیر کا ہے جس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا‘ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ گزشتہ روز سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان اور امریکہ کے حوالے سے افغان مہاجرین ہمارے لئے مسئلہ نمبر ایک ہے۔ افغان مہاجرین کی بہرصورت واپسی ہونی چاہیے۔ انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے اعلان کو یواین سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی قرار دیا اور کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسی تناظر میں ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس فیصلہ پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملہ پر او آئی سی کا سربراہی اجلاس 13 دسمبر کو استنبول میں منعقد ہورہا ہے جس میں مسلم امہ اتفاق رائے سے تمام اقدامات اٹھائے گی۔ پاکستان اس کا اہم حصہ ہوگا اور او آئی سی کے جو بھی فیصلے ہونگے پاکستان انکی حمایت بھی کریگا اور ان پر عمل بھی کریگا۔ انکے بقول امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا حالیہ دورہ امریکی عہدیداروں کے طویل دوروں کی فہرست کا اختتامی دورہ تھا۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین یہ ملاقاتیں اس کامن گرائونڈ کو تلاش کرنے کی کاوشیں ہیں جس پر دونوں ممالک میں اتفاق ہو سکے اور آگے چلا جاسکے۔
درحقیقت کشمیر اور فلسطین ہی وہ حل طلب دیرینہ مسائل ہیں جو علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرے کی گھنٹی بجاتے رہتے ہیں اور بدقسمتی سے غاصب بھارت اور اسرائیل کی سرپرستی پر مبنی امریکی پالیسیوں کے باعث یہ مسائل حل ہونے کے بجائے زیادہ گمبھیر ہوئے ہیں۔ کشمیری اور فلسطینی عوام گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے حق خودارادیت کیلئے صبرآزما جدوجہد میں مصروف ہیں اور غاصب ممالک کی افواج کے ہر ظلم و تشدد اور انسانیت سے عاری سفاکانہ ہتھکنڈوں کا سامنا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے پائے استقلال میں کبھی لرزش نہیں آنے دی۔ یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کے تحت کشمیریوں اور فلسطینیوں کا حق خودارادیت تسلیم کرتے ہوئے انکی مرضی کے مطابق انکے مستقبل کے تعین پر زور دیا جاچکا ہے مگر آج تک نہ بھارت اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کو خاطر میں لایا اور نہ ہی اسرائیل نے آزاد و خودمختار فلسطین کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادیں درخوراعتناء سمجھیں جبکہ یہ دونوں ممالک جبرو بربریت کے راستے پر چل کر اب تک لاکھوں کشمیری اور فلسطینی عوام کا خونِ ناحق بہا چکے ہیں۔
امریکہ میں ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد تو کشمیریوں اور فلسطینیوں پر مظالم توڑتے بھارت اور اسرائیل کے حوصلے مزید بلند ہوچکے ہیں۔ بھارت میں ہندو انتہاء پسند نریندر مودی کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد دہلی سرکار نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے اقوام عالم کے تمام نمائندہ فورموں پر آواز اٹھانے کی پاداش میں پاکستان کو ’’سبق سکھانے‘‘ کی پالیسی طے کی جو مودی کے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلہ کی کڑی تھی چنانچہ کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ تیز کرکے مودی سرکار نے پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی بڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کیلئے مودی سرکار نے اپنی افواج کو اسرائیل اور امریکی ساختہ جدید اسلحہ سے لیس کردیا جس کے زور پر بھارتی فوجوں نے نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کا قتل عام شروع کر دیا جبکہ اسرائیلی ساختہ پیلٹ گنوں سے فائرنگ کرکے کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کو اندھا اور مستقل اپاہج کیا جانے لگا۔ اس بھارتی ظلم و تشدد کی ابتداء نوجوان حریت لیڈر مظفر برہان وانی کی بھارتی فوجوں کے ہاتھوں شہادت کے ردعمل میں کشمیری نوجوانوں کی طرف سے شروع کی گئی آگاہی کی تحریک کو کچلنے سے ہوئی مگر ظلم و جبر کے ہر قسم کے ہتھکنڈے کے باوجود کشمیریوں کی آواز دبائی نہیں جاسکی اور آج کشمیری نوجوان سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں شروع کی گئی اپنی مؤثر احتجاجی مہم کے ذریعے تمام عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی فورموں کو بھارتی مظالم اور جبروتشدد کے تمام ہتھکنڈوں سے آگاہ کرچکے ہیں چنانچہ اقوام عالم میں آج کشمیریوں کے حق خودارادی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کیلئے آواز اٹھائی جارہی ہے جس سے زچ ہو کر اب بھارت نے کشمیری عوام پر زہریلے کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال شروع کردیا ہے۔ پاکستان اس بھارتی جنونیت کو پہلے ہی عالمی قیادتوں کے نوٹس میں لاچکا ہے جبکہ گزشتہ روز صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے بھی ایک سیمینار سے خطاب کے دوران عالمی برادری کو متوجہ کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جن پر عالمی برادری خاموش ہے اور مغرب نے دہرا معیار اختیار کیا ہوا ہے جو سب سے بڑا المیہ ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو ایک سنگین جرم قرار دیا اور کہا کہ آزاد کشمیر بھی بھارت سے محفوظ نہیں۔ انہوں نے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ رواں سال بھارت نے 1550 مرتبہ سیزفائر لائن کی خلاف ورزی کی جبکہ اس دوران بھارتی فوجوں نے 60 سے زائد سویلینز کو شہید کیا۔ انہوں نے دنیا کو باور کرایا کہ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث مسئلہ کشمیر دو طرفہ مذاکرات کے ذریعہ حل نہیں ہورہا کیونکہ بھارت ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے اور کبھی دہشت گردی کا الزام لگا کر دوطرفہ مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرلیتا ہے۔ بھارت تو درحقیقت پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے جو پاکستان سے منسلک آزاد کشمیر اور اسکے شمالی علاقہ جات پر بھی شب خون مارنے کی تیاریوں میں مصروف ہے جس کا مودی‘ سشماسوراج اور بھارتی آرمی چیف کے متعدد بیانات سے عندیہ بھی ملتا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی نئی افغان پالیسی کے تحت اسی جنونی مودی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اسے دہشت گردوں کی تلاش کے نام پر افغانستان ہی نہیں‘ پاکستان کی نگرانی بھی سونپ دی جس سے پاکستان کی سلامتی کیخلاف مودی سرکار کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ چنانچہ اسکی سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے آئے روز پاکستان کو ’’سبق سکھانے‘‘ اور سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اس طرح ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ نے اس خطہ کے علاوہ عالمی امن و سلامتی کو بھی سنگین خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ مسلمان دشمنی پر مبنی ٹرمپ کی انتہاء پسندانہ سوچ اور پالیسیوں سے آج اقوام عالم سخت خطرات میں گھری نظر آتی ہے۔ انہوں نے صہیونی ایجنڈا کی تکمیل کیلئے گزشتہ ہفتے جس دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطین کے اقوام عالم میں تسلیم شدہ دارالحکومت بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا اس سے مسلم امہ ہی نہیں‘ پوری اقوام عالم میں اضطراب اور سخت غم و غصہ کی کیفیت پیدا ہوئی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف اس وقت پوری دنیا میں مظاہروں اور خوفناک احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مغرب اور یورپی یونین بھی ٹرمپ کے اس اقدام پر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق ہونیوالے سنگین خطرات کی بنیاد پر سخت مضطرب ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس تو ٹرمپ کے اس اعلان کو کھلے اعلان جنگ کے مترادف قرار دے چکے ہیں جبکہ ترکی کے صدر اردوان نے اسرائیل کو بچوں کی قاتل دہشت گرد ریاست قرار دے دیا ہے اور عرب لیگ نے گزشتہ روز اپنے ہنگامی اجلاس میں ٹرمپ سے اپنا فیصلہ واپس لینے کا تقاضا کیا ہے۔ پاکستان نے تو ٹرمپ کے باضابطہ اعلان سے بھی پہلے امریکہ کو باور کرادیا تھا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے مشرق وسطیٰ آگ کی لپیٹ میں آجائیگا جس سے علاقائی ہی نہیں‘ عالمی امن و سلامتی کو بھی سخت خطرہ لاحق ہوگا۔ اسی تناظر میں پاکستان نے گزشتہ روز امریکہ سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلہ پر نظرثانی کا باضابطہ تقاضا کیا جس پر عقل سے عاری ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے الٹا پاکستان کو وارننگ دی گئی ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس پر اسکی تصادم کی پالیسی سے امریکہ پاکستان تعلقات شدید متاثر ہونگے اس لئے اسلام آباد اس ایشو پر محفوظ کھیلے۔ دفتر خارجہ کے مطابق امریکہ نے اس ایشو پر ظاہر کئے گئے پاکستان کے ردعمل پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ معاملہ فہمی سے اجتناب کرکے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے کتنے سنگین خطرات پیدا کررہی ہے۔
یہ خطرات محسوس کرکے ہی عالمی ادارے اور قیادتیں جہاں کشمیر و فلسطین کے دیرینہ مسائل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر حل کرنے پر زور دے رہی ہیں‘ وہیں وہ کشمیری اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا بھی اظہار کررہی ہیں۔ اگر ٹرمپ اس معاملہ میں ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں اور بھارت اور اسرائیل کی سرپرستی اپنا کریڈٹ بنائے رکھتے ہیں تو وہ اپنی مسلم دشمن انتہاء پسندانہ پالیسیوں کے باعث امریکہ کو اقوام عالم میں تنہاء کرکے چھوڑیں گے۔ جس طرح ان کیخلاف بالخصوص مغرب اور یورپ میں ردعمل سامنے آرہا ہے وہ ان کیلئے نوشتۂ دیوار ہونا چاہیے جبکہ اس سے یہ حقیقت مزید اجاگر ہو گئی ہے کہ علاقائی اور عالمی امن کی خاطر کشمیری اور فلسطینی عوام کی جدوجہد تسلیم کرکے انہیں حق خودارادیت دینا ہوگا ورنہ ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ علاقائی اور عالمی تباہی کی نوبت لاکر رہے گا۔