پاکستان پوسٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی ترسیل زر میں مبینہ طور پر ایک ارب 42 کروڑ 27 لاکھ روپے کے گھپلے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ کمیٹی پاکستان پوسٹ کے سیکرٹری اور دیگر اعلیٰ افسروں پر مشتمل ہے جو ان بھاری رقوم میں مبینہ مالی بے ضابطگی کے بارے تحقیقات کریگی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سکینڈل میں محکمہ پوسٹ کے اعلیٰ حکام ملوث ہوسکتے ہیں۔
محکمہ ڈاک جسے اب پاکستان پوسٹ کا نام دیا گیا ہے پاکستان بلکہ غیرمنقسم ہندوستان کا سب سے پرانا محکمہ ہے، ریلوے اور محکمہ انہارسے بھی پرانا۔ لوگوں پر اس کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ بھاری رقوم کے منی آرڈر اس کے ذریعے‘ ملک کے کونے کونے تک پہنچائے جاتے تھے۔ پنشن بھی اسکے ذریعے تقسیم ہوتی تھی‘ دور دراز علاقوں میں جہاں بینک نہیں ہوتے تھے یہ محکمہ بینک کا فریضہ بھی انجام دیتا تھا۔ تقسیم کے بعد بھی ایک عرصہ تک اسکی دیانت اور عوام کے اعتبار کا یہ حال تھا کہ اس کیخلاف کبھی ادنیٰ سی بھی شکایت سننے میں نہیں آئی۔ ٹیلی فون اور پھر موبائل آنے اور اس شعبے میں نجی کمپنیوں کے آنے اور جگہ جگہ بینک کھل جانے سے اس کی سابقہ حیثیت تو برقرار نہ رہی لیکن اسکے باوجود ڈرائیونگ لائسنسوںاور اسلحہ لائسنسوں کی تجدید وغیرہ سمیت بہت سی عوامی خدمات اسکے پاس تھیں۔ غیرملکیوں میں مقیم پاکستانی اپنی خون پسینہ کی کمائی بھی اپنے اہل خانہ کو بھجوانے کیلئے اس کی خدمات سے استفادہ کرتے تھے۔ عوامی خدمت کے ایسے شعبے میں گھپلوں کی خبر بہت افسوسناک ہے۔ اس الزام کی ٹھوس تحقیقات ہونی چاہئیں اور جو قصوروار ہوں انہیں عبرتناک سزا دی جائے کیونکہ ایسے مبینہ گھپلے نہ صرف ایک نیک نام محکمہ کی بدنامی کا باعث بنے ہیںبلکہ بیرون ملک پاکستانیوں کے محکمہ پوسٹ پر اعتماد کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024