وزیر خارجہ کا چند ماہ پہلے اسمبلیاں تحلیل کرانے کا عندیہ اور اپوزیشن کے چند ماہ میں حکومت گرانے کے دعوے
وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے دیئے گئے تو یہ بڑا مایوس کن اقدام ہوگا۔ اپنے سیاسی فائدے کیلئے ہم اسمبلیاں چند ماہ قبل بھی تحلیل کرسکتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ حالات سے فائدہ اٹھانا پڑا تو ہمارے پاس چند ماہ پہلے اسمبلیاں توڑنے کا آپشن موجود ہے تاہم ابھی اس بارے میں کچھ طے نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسا کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ انکے بقول پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی میں اتنی سکت نہیں کہ وہ سندھ یا خیبر پی کے حکومت کو ختم کریں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں الیکشن ہونیوالے ہیں اس لئے عوام انتخابات کی تیاری کرلیں۔ گزشتہ روز جڑانوالہ میں ایک پبلک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگلی حکومت تحریک انصاف کی ہوگی۔
یہ درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت آج سب سے زیادہ دبائو میں ہے جسے پارٹی سربراہ میاں نوازشریف اور انکے اہل خانہ کیخلاف زیرسماعت نیب کے ریفرنسوں کے بعد اب سانحۂ ماڈل ٹائون پر جسٹس باقر نجفی کی جاری کی گئی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے بھی سیاسی میدان میں متعدد چیلنجوں کا سامنا اور اپنے قانونی دفاع کی جنگ میں سرخروئی کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے جبکہ میاں نوازشریف کی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ الجھنے کی سیاست نے بھی اس پارٹی کو سخت آزمائش میں ڈالا ہوا ہے کیونکہ مزاحمت کی اس سیاست میں انکی پارٹی کی حکومت پر بھی دبائو پڑ رہا ہے اور پارٹی کے اندر انتشار کی فضا بھی ہموار ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہی وہ صورتحال ہے جو کسی حکومت کو گرانے کیلئے ترپ کے پتے کی صورت میں اپوزیشن کے ہاتھ آجاتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کا یہی المیہ ہے کہ وہ اپنی تشکیل سے اب تک اپوزیشن کی جانب سے اچھالے گئے کسی نہ کسی ایشو کے باعث سخت دبائو کی زد میں رہی ہے اور اس کیلئے ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا منظر بنتا رہا ہے تاہم اس دبائو کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے سسٹم کو بچانے کے نام پر پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن اور دوسری پارلیمانی جماعتوں کی تائید حاصل کرکے اپنے اقتدار کے چار سال گزار لئے جس کے دوران عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی طویل دھرنا تحریک بھی حکومت کی راہ میں حائل ہوئی مگر اسے کوئی ناقابل تلافی نقصان پہنچائے بغیر گزر گئی۔ اسکے بعد بھی عمران خان مختلف ایشوز پر حکومت کیخلاف چائے کے کپ میں طوفان اٹھاتے رہے مگر حکمران جماعت ان سارے دھچکوں میں خود کو سنبھال کر سرخرو ہوتی رہی۔ اس پارٹی کیلئے اصل آزمائش پانامہ کیس میں میاں نوازشریف کی سپریم کورٹ سے نااہلیت کے بعد شروع ہوئی جب فرینڈلی اپوزیشن پیپلزپارٹی نے بھی اس کا دامن جھٹکنا شروع کردیا اور اسکے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے جارحانہ طرز سیاست اختیار کرتے ہوئے حکومت کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ اسکے علاوہ میاں نوازشریف کی نااہلیت کا مسلم لیگ (ن) کو تنظیمی حوالے سے بھی نقصان ہوا جسے پارٹی کے اندر سے چودھری نثارعلی خاں‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور بعض دوسرے پارٹی اکابرین کی جانب سے پارٹی کے تنظیمی اور حکومتی امور پر کی جانیوالی تنقید کا بھی جبکہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اندر بھی نقب لگنے کے آثار پیدا ہونے لگے۔ پھر ختم نبوت کے حلف نامے میں ردوبدل کے ایشو نے تو اس پارٹی کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دیں۔ اگرچہ حکمران مسلم لیگ (ن) نے اس نازک ایشو پر پیدا ہونیوالے خلفشار پر علامہ خادم حسین رضوی کا دھرنا ختم کراکے کسی حد تک قابو پالیا ہے تاہم اس ایشو پر شروع ہونیوالی آزمائش ابھی مسلم لیگ (ن) کے سر سے مکمل طور پر ٹلی نہیں اور اب وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ کیلئے مسلم لیگ (ن) کے متعدد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی صاحبزادہ غلام نظام الدین سیالوی کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوتے نظر آرہے ہیں جنہوں نے آج 10‘ دسمبر کو دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں ختم نبوت کنونشن میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کے استعفوں سمیت حکومت مخالف تحریک کیلئے بعض اہم اعلانات کرنے ہیں۔
ممکن ہے پارٹی کے اندر اور باہر سے پیدا ہونیوالے اس دبائو کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کسی سبکی سے بچنے کی خاطر مقررہ آئینی میعاد سے پہلے ہی اسمبلیاں تحلیل کراکے انتخابات میں جانے کا سوچ رہی ہو تاہم ایسا کوئی فیصلہ اسے سودوزیاں کا موازنہ کرکے ہی کرنا چاہیے۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور قیادت اپوزیشن کی ماضی کی دھرنا تحریک اور استعفوں کی سیاست جیسے بڑے بڑے بحرانوں سے خود کو بچاتی رہی ہے تو اب آئینی میعاد کے اندر انتخابات کی منزل تک پہنچنے کیلئے وقت ہی کتنا رہ گیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خود اعلان کرچکے ہیں کہ حکومت اور اسمبلیوں کی آئینی میعاد آئندہ جون تک برقرار ہے جس کے بعد انتخابات کے انتظامات کیلئے عبوری نگران حکومت تشکیل پا جائیگی جبکہ اسی مدت کے دوران آئندہ مارچ میں سینٹ کی آدھی نشستوں کے انتخابات کا مرحلہ طے ہونا ہے جن میں عددی اکثریت کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی نوشتۂ دیوار ہے اس لئے دانشمندی اور سیاسی دور اندیشی کا تو یہی تقاضا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے تک انہیں کوئی گزند نہ پہنچنے دے اور اپنی حکومت بھی بچائے رکھے جس کے بعد وہ انتخابات کے عمل میں عوام کے پاس جائیگی تو عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے اورنج ٹرین کے منصوبہ کی تکمیل اور لوڈشیڈنگ کے خاتمہ سمیت اسکے ہاتھ میں بہت کچھ ہوگا جبکہ اس وقت تک اسے سینٹ میں بھی غالب اکثریت حاصل ہوچکی ہوگی۔
اسکے برعکس اگر حکومت قبل ازوقت انتخابات کیلئے اسمبلیاں تحلیل کرانے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ اقدام ایک جارح اپوزیشن کے مقابل اسکی سیاسی شکست سے تعبیر ہوگا جس کا فائدہ اٹھانے کیلئے ہی اس وقت اپوزیشن اپنی صف بندی کررہی ہے۔ حکمران مسلم لیگ (ن) کو غالباً یہ خطرہ درپیش ہے کہ کہیں اپوزیشن جماعتیں اپنے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے استعفے دلوا کر قبل ازوقت انتخابات کی راہ ہموار نہ کردیں جبکہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سندھ اور خیبر پی کے اسمبلی تحلیل کراکے بھی نئے انتخابات کی متقاضی ہوسکتی ہیں اور یقیناً اسی حوالے سے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی قیادتیں جوڑتوڑ میں مصروف ہیں کیونکہ ان کا مطمح نظر اس وقت صرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرانے کا ہے تاکہ اسے آئندہ انتخابات تک ترقیاتی منصوبے مکمل کرانے کا موقع نہ مل سکے تاہم اس سیاسی حکمت عملی میں اپوزیشن جماعتوں کو سیاسی فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت اپنے صوبوں کی اسمبلیاں سینٹ کے انتخابات سے قبل تحلیل کرانے کی حماقت کرتی ہیں تو سینٹ کا یہ حلقہ انتخاب تحلیل ہونے کی بنیاد پر مارچ میں مقررہ مدت پر سینٹ کے انتخابات ہی نہیں ہو پائیں گے اور پھر نئی اسمبلیاں سینٹ کا حلقہ انتخاب بنیں گی۔
اپوزیشن یہ سیاسی جواء اس توقع پر کھیلنا چاہتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل ہو جائیگی جس کے زور پر وہ سینٹ کے انتخابات میں بھی پھر سے اکثریت حاصل کرلے گی اور اس طرح وہ مسلم لیگ (ن) کو بیک وقت حکومت اور سینٹ سے بھی فارغ کرنے میں کامیاب ہو جائیگی۔ حکمران مسلم لیگ (ن) کو بہرصورت اپوزیشن کی اس حکمت عملی کے توڑ کی راہ نکالنی ہے اس لئے اسے اپوزیشن کے دبائو میں آکر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس سے اسے آئندہ کی سیاست میں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے۔ اگر حکومت اس وقت ازخود اسمبلیاں تحلیل کرائے گی تو اس سے لامحالہ اپوزیشن کے مقاصد پورے ہونگے جبکہ وہ اسمبلیوں سے استعفے دینے یا اسمبلیاں تحلیل کرانے کی سیاست میں اپوزیشن کو فری ہینڈ دیگی تو اقتدار سے چند لمحات کی محرومی کا بھی سوچ کر اسکے پائوں ڈگمگا سکتے ہیں۔ عمران خان نے خیبر پی کے کا اقتدار بچائے رکھنے کی خاطر ہی اپنی سابقہ دھرنا تحریک میں اپنے کے پی کے اسمبلی کے ارکان سے استعفے نہیں دلوائے تھے جبکہ پیپلزپارٹی تو سندھ کا اقتدار کھونے کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔ اس تناظر میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کیلئے اب بھی اپنی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرانے کے فیصلے تک پہنچنا مشکل ہوگا۔ اگر بالفرض محال وہ سندھ اور کے پی کے اسمبلیاں تحلیل کرا بھی دیتی ہیں تو انتخابات کا میدان سب کیلئے کھلا ہوگا جس میں عمران خان کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قطعی اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ باطل بھی ہو سکتا ہے اور مسلم لیگ (ن) کو سخت آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود پارلیمانی سیاست میں پہلے کی طرح پھر کامیابی بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں حکمران مسلم لیگ (ن) کیلئے بہترین حکمت عملی تو یہی ہے کہ وہ اپوزیشن کی وکٹ پر آکر کھیلنے سے گریز کرے‘ اپنی پارٹی میں موجود تنظیمی خامیاں دور کرنے اور پارٹی کے سینئر ارکان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرے اور حکومت کے ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔ اگر اس نے اپنے اقتدار کے ساڑھے چار سال اپوزیشن کی اکھاڑ پچھاڑ کی سیاست کا مقابلہ کرتے گزار لئے ہیں تو اب اس سیاست کے دوران اسمبلیوں کی آئینی میعاد کی تکمیل کا کریڈٹ بھی اسے اپنے کھاتے میں ڈالنا چاہیے۔