گزشتہ روز ڈالر کی قیمت ریکارڈ 110 روپے تک پہنچ کر 106.99 پر آئی۔ ایک گھنٹے میں تین روپے کا اضافہ ہوا جس سے ظاہر ہے کہ پوری مارکیٹ، خرید و فروخت اور لین دین کا پورا نظام متاثر ہوا اور تعجب یہ ہے کہ اس کی وجہ کسی کو معلوم نہیں تھی اور سٹیٹ بنک نے بھی کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پراسرار قوتیں اب قومی معیشت کے ساتھ بھی کھیلنے لگیں جو کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ایک گھنٹے تک روپے کی قدر میں اُتھل پتھل ہوتی رہی مگر سٹیٹ بنک نے کوئی مداخلت نہیں کی، بلکہ بنک کے ترجمان نے صورتحال کی سنگینی کو یہ کہہ کر کم کرنے کی کوشش کی کہ روپے کی قدر میں اتار چڑھائو مارکیٹ کے رجحان کے مطابق ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کو انٹر مارکیٹ میں ڈالر کے ایکسچینج ریٹ میں ایڈجسٹمنٹ قرار دیا اور کہا کہ اگر سٹے بازی یا وقتی دبائو سامنے آیا تو سٹیٹ بنک مداخلت کرنے کیلئے تیار ہے۔ گزشتہ روز جو کچھ ہوا وہ چونکا دینے والا ہے اور کئی خدشات کو بھی جنم دیتا ہے۔ جب ماہرین مالیات کے مطابق گزشتہ چند دنوں میں ملک کے اندر ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جس کے باعث روپے کی قیمت پر منفی اثر پڑتا تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ ڈالر روپے کے مقابلہ میں اچانک مہنگا ہو گیا اور پھر یکایک نیچے آگیا۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ معیشت پر سٹیٹ بنک کے علاوہ کچھ اور لوگوں کو بھی کنٹرول حاصل ہے جو پیسے کے لالچ میں کسی وقت بھی قومی معیشت کو تہہ و بالا کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال تشویشناک ہے۔ گزشتہ روز کے واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہئے اور ذمہ داروں کا سراغ لگا کر انہیں قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے۔ اگر اب نظرانداز کیا گیا تو آئندہ اس سے بھی زیادہ کوئی سنگین صورتحال درپیش آ سکتی ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، پاکستانی روپے کے غیرمستحکم ہونے سے قومی معیشت کو دھچکا لگتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38