پاک فضائیہ کے سربراہ کا امریکی ڈرون بھی مار گرانے کا عزم اور آرمی چیف کی جمہوری اور اقتصادی نظام پر تنقید
پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرچیف مارشل سہیل امان نے کہا ہے کہ پاک فضائیہ نے دفاع وطن کیلئے بھرپور تیاری کر رکھی ہے‘ اگر امریکی ڈرون طیارے پاکستان کے اندر آئے تو مار گرائیں گے۔ پاکستان میں کوئی مداخلت کی کوشش نہ کرے کیونکہ ملک کی سالمیت و خودمختاری کا ہر قیمت پر تحفظ کرینگے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ایئریونیورسٹی کے زیراہتمام منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ سے ہتھیار نہ ملنے پر ہم خود اپنے ہتھیار تیار کررہے ہیں اور ہم پانچویں جنریشن کا جہاز اکیلے بنانے جارہے ہیں۔ انکے بقول کسی پر اپنی مرضی کی جمہوریت مسلط نہیں کی جا سکتی‘ جمہوریت کے نام پر عراق اور لیبیا میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین‘ بھارت اور ایران ہمارے ہمسائے ہیں اور رہیں گے کیونکہ ہم اپنے ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ 2016ء میں امریکہ نے ہمیں ہتھیار دینے کا وعدہ کیا مگر نہیں دیئے چنانچہ اب ہم اپنے ہتھیار خود تیار کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2020ء تک پاک فضائیہ اپنی تمام ضروریات پوری کرنے اور ہتھیاروں کی فروخت کیلئے تیار ہوگی۔ ہم بغیر پائلٹ طیارہ بھی بنا رہے ہیں اور ایک ڈیڑھ سال میں نیا طیارہ بن جائیگا۔ اسکے علاوہ خلائی پروگرام پر بھی کام جاری ہے اور ہم جلد نیا سیٹلائٹ شروع کرینگے۔ جب امریکہ نے ایف 16 دینے سے انکار کیا تو ہم نے جے ایف 17 بنایا جو ایف 16 سے زیادہ بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب اسٹیلتھ طیارہ بھی پاکستان کی حدود میں آجائے تو وہ بھی واپس نہیں جا سکتا۔ پاک فضائیہ کی تعریف تو بھارت میں بھی کی جاتی ہے۔
دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ میں وائس آف بلوچستان کے زیراہتمام منعقدہ ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ملک کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال پر کھل کر بات کی اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر سیاست دان‘ فوج اور تمام مکاتب فکر کے لوگ مل کر پاکستان کی ترقی میں مثبت کردار ادا کریں۔ پاکستان کی ترقی مضبوط جمہوریت کے ساتھ منسلک ہے۔ آرمی حکومت کرنے کیلئے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کیلئے ہے۔ پاکستان کی ترقی کیلئے میرٹ کی بالادستی‘ تعلیم اور انتظامی امور میں بہتری کی ضرورت ہے۔ انکے بقول ماضی میں فوج اور سیاست دانوں دونوں نے غلطیاں کی ہیں‘ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا کام کریں اور سیاست دان اپنا کام کریں۔ انکے بقول وہ جمہوریت پسند انسان ہیں مگر جمہوریت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد انکی خدمت کے بجائے اپنے مفاد کو ترجیح دیں۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں ٹیکس کلیکشن بہت کم ہے اور سالانہ 32 بلین ڈالر ضائع ہو جاتے ہیں جبکہ 93 فیصد بالواسطہ ٹیکسوں کا براہ راست اثر غریب عوام پر پڑتا ہے۔ انہوں نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ 40 برسوں میں سکولوں سے زیادہ مدرسے بنے ہیں۔
اس وقت ملک کی خودمختاری اور سالمیت کو اندرونی اور بیرونی طور پر جن سنگین خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے‘ اسکے پیش نظر عساکر پاکستان کو دفاع وطن کیلئے ہمہ وقت مستعد اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے جبکہ ملک کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کو جدید ہتھیاروں کی تیاری کے سلسلہ میں بروئے کار لانے کا بھی یہی وقت ہے‘ ہمارا دشمن بھارت جو شروع دن سے ہماری سلامتی کے درپے ہے‘ اس وقت ہمیں اندرونی اور بیرونی طور پر کمزور کرنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف ہے۔ اندرونی طور پر وہ ’’را‘‘ کے ذریعے پھیلائے جانیوالے اپنے دہشت گردی کے نیٹ ورک کی بنیاد پر ہماری سلامتی کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے اور پشاور کے زرعی ڈائریکٹوریٹ پر گزشتہ ہفتے ہونیوالی دہشت گردی کی گھنائونی واردات اسکی تازہ مثال ہے جس کے بارے میں یہ ٹھوس شواہد ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کو مل چکے ہیں کہ ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے ہی افغانستان سے پاکستان میں گھس کر انسانی خون بہانے والی یہ سفاکانہ واردات کی۔ اس طرح بھارت کنٹرول لائن پر جنگی جنون بڑھا کر ہم پر جارحیت مسلط کرنے کے موقع کی تاک میں بیٹھا ہے جس کیلئے گزشتہ دو سال سے اس نے مقبوضہ کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر جارحانہ اقدامات کی انتہاء کر رکھی ہے۔ وہ پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ بھی کرچکا ہے اور دوبارہ سرجیکل سٹرائیک کی دھمکی بھی دے چکا ہے جبکہ وہ کنٹرول لائن پر ہماری فضائی حدود میں جاسوس ڈرون طیارہ بھیج کر ہماری حساس تنصیبات کی جاسوسی کی ناکام کوشش بھی کرچکا ہے۔ پاک فضائیہ نے اپنی بہترین استعداد و صلاحیتوں کی بنیاد پر ہی دشمن کے اس جاسوس طیارے کو موقع پر مار گرایا۔
اسی طرح ہمیں ملک کی سرحدوں پر ایران‘ افغانستان اور امریکہ کی جانب سے بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ افغانستان تو ہماری سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازشوں میں باقاعدہ شریک کار ہے جو بھارت کو دہشت گردوں کی تربیت کیلئے اپنی سرزمین فراہم کرتا ہے اور پھر یہی تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کے منصوبوں میں بھارت کی معاونت کرتا ہے۔ اسی طرح ایران کی جانب سے دہشت گردوں کے تعاقب کے نام پر ہماری سرزمین کے اندر اسکے خاصہ داران کی فائرنگ کا آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوجاتا ہے جبکہ امریکہ تو اب بھارت سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ہماری سلامتی اور خودمختاری کو چیلنج کررہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی میں بطور خاص پاکستان کو اپنے ہدف پر رکھا گیا ہے اور ٹرمپ کے علاوہ دوسرے امریکی حکام بھی آئے روز دھمکی دیتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کیلئے کوئی مثبت پیش رفت نہ کی تو امریکہ خود ان مبینہ ٹھکانوں پر اپریشن کریگا۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے اندر کارروائی کا اختیار ٹرمپ انتظامیہ نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو بھی دے دیا جسے نئی افغان پالیسی میں افغانستان ہی نہیں‘ پاکستان کے اندر بھی دہشت گردوں کا کھوج لگانے اور ان کیخلاف اپریشن کرنے کا تھانیدارانہ اختیار سونپا گیا اور اسکے بعد ہی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے اندر امریکی کارروائی میں ڈرون حملے بھی شامل ہیں جو بش جونیئر کے دور صدارت سے شروع ہوئے اور اوبامہ کے بعد اب ٹرمپ کے دوراقتدار میں بھی جاری ہیں۔ جب وطن عزیز اندرونی اور بیرونی طور پر اتنے سنگین خطرات سے دوچار ہے تو اسکی بنیاد پر ملک کو ان خطرات سے بچانے کیلئے عساکر پاکستان کی ذمہ داریاں دوچند ہو جاتی ہیں۔
آئین پاکستان میں اسی تناظر میں ملک کے عسکری اداروں اور عسکری قیادتوں کی ذمہ داری صرف دفاع وطن تک محدود رکھی گئی ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے انہیں سول اتھارٹی کے ماتحت رکھا گیا ہے اور آئین کی دفعہ 243(1) میں صراحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے کہ ملک کی مسلح افواج کُلی طور پر وفاقی حکومت کے کنٹرول اور کمان میں ہونگی۔ اسی طرح آئین کے فورتھ شیڈول میں دیئے گئے مسلح افواج کے حلف کے تحت فوج کے ہر رکن کو اس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملک سے وفاداری اور آئین پاکستان کی پاسداری کرینگے‘ خود کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کرینگے اور دیانتداری کے ساتھ پاکستان کی خدمت و حفاظت کرینگے۔ مسلح افواج میں بری‘ بحری اور فضائی تینوں افواج شامل ہیں جن پر دفاع وطن کی بیک وقت اور مساوی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اگر ملک کے آج کے حالات افواج پاکستان سے یکسوئی کے ساتھ دفاع وطن کیلئے مستعد و چوکس رہنے کے متقاضی ہیں تو انکی توجہ ملک کے کسی دوسرے معاملے پر مرکوز ہی نہیں ہونی چاہیے۔ اس تناظر میں پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرچیف مارشل سہیل امان نے جس عملیت پسندی کے ساتھ پاک فضائیہ کے کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے مکمل تیار اور فضائی خطرات سے نمٹنے والے مشاق جے ایف‘ ڈرون اور دوسرے طیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کا قوم کو مژدہ سنایا ہے اسکے پیش نظر قوم مطمئن ہے کہ ملک کا دفاع عسکری قیادتوں کے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ پاک فضائیہ نے ڈرون گرانے کی صلاحیت چار سال قبل ہی حاصل کرلی تھی جس کا عملی مظاہرہ بھارتی ڈرون گرا کر کیا بھی جا چکا ہے تاہم یہ صلاحیت موجود ہونے کے باوجود اب تک کوئی امریکی ڈرون کیوں نہیں گرایا جا سکا اس مصلحت سے آگاہی بھی قوم کا حق ہے کیونکہ کل کو ایسی کوئی مصلحت دفاع وطن کی خاطر ایٹمی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے سے گریز کی صورت میں بھی کارفرما ہو سکتی ہے۔ اول تو اب دفاع وطن کی راہ میں ایسی کوئی مصلحت آڑے ہی نہیں آنی چاہیے اور اگر ایسی مصلحت سے کام لینے کی مجبوری لاحق بھی ہو تو اسے قوم سے مخفی ہرگز نہیں رکھا جانا چاہیے۔
اگر ہماری عسکری قیادتیں ایئرچیف ہی کی طرح اپنی اپنی فورس کو دشمن کیلئے سیسہ پلائی دیوار بنانے میں مگن ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دشمن کی کسی بھی جارحیت یا سازش کو ناکام نہ بناسکیں تاہم اس کیلئے خالصتاً پیشہ ورانہ فرائض پر یکسوئی کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز آرمی چیف نے کوئٹہ کی تقریب میں جمہوری نظام‘ اقتصادیات‘ ٹیکسیشن اور نظام تعلیم پر جن خیالات کا اظہار کیا‘ وہ چاہے درست بھی ہوں مگر انکی پیشہ ورانہ آئینی ذمہ داریوں کے ہرگز زمرے میں نہیں آتے۔ ملک میں جمہوریت‘ اقتصادیات اور ٹیکسیشن میں کوئی خامیاں ہیں تو انہیں دور کرنے کی ذمہ داری منتخب سول حکومت اور اسکے ماتحت ریاستی سول اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ اس معاملہ میں دیانتداری کے ساتھ فرائض ادا نہیں کرینگے تو آئندہ انتخابات میں عوام حکمران جماعت کو مسترد کرنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگائیں گے۔ ملک کی عسکری قیادتوں کا سول ایڈمنسٹریشن سے متعلق کسی بھی معاملہ سے یقیناً کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے اور جب یہ روایت قائم ہوجائیگی تو یقیناً جمہوری نظام بھی مستحکم اور مضبوط ہو جائیگا۔ ماضی کی غلطیوں کے اسی تناظر میں ازالہ کی ضرورت ہے جس کیلئے آرمی چیف نے سیاست دانوں اور فوج دونوں کو راستہ دکھایا ہے تو وہ اس پر عملاً کاربند بھی ہو جائیں۔ اس سے ریاستی آئینی ادارے خود ہی باہمی ربط میں آجائینگے اور یہی وہ مضبوطی ہوگی جو ملک کی فضائی حدود میں گھسنے والے کسی امریکی ڈرون کو بھی مار گرانے کیلئے کسی مصلحت کو حائل نہیں ہونے دیگی۔ آرمی چیف کے بقول اگر ملک میں 40 برسوں میں سکولوں سے زیادہ مدرسے بنے ہیں تو یہ بھی حکومت کیلئے ہی سنجیدہ سوچ بچار کا معاملہ ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے اس بیان سے اس معاملہ میں حکومتی تفکر نظر بھی آرہا ہے کہ ملک میں مفتی اور پیرسر پلس اور سائنس دان کم ہیں۔ اس سے آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہوتی رہی ہیں اور اب بھی حائل ہوتی نظر آرہی ہیں‘ اس کا ملک کی منتخب حکومت نے ہی ازالہ کرنا ہے اور حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر نظام تعلیم میں اصلاح کے اقدامات اٹھانا بھی ہونگے جس کیلئے حکومت کے ماتحت عسکری ادارے کے سربراہ کو کسی قسم کا مشورہ دینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر تمام ریاستی آئینی ادارے اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرینگے تو یقیناً ایسا مستحکم پاکستان تشکیل پا جائیگا جس کی طرف اندر یا باہر سے کسی بھی دشمن کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں ہوگی۔