ہائیکورٹ کے حکم پر سانحۂ ماڈل ٹائون کی انکوائری رپورٹ کا اجرائ‘ رانا ثناء اللہ کے تحفظات اور طاہرالقادری کے نئے الزامات
پنجاب حکومت نے تین سال قبل کے سانحۂ ماڈل ٹائون کے حوالے سے مسٹر جسٹس باقر علی نجفی کی مرتب کی گئی رپورٹ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ کے فیصلہ کی روشنی میں عوام الناس کیلئے جاری کردی۔ 132 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ پنجاب حکومت کی سرکاری ویب سائیٹ پر بھی چڑھا دی گئی ہے۔ قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں عدالتِ عالیہ کے فل بنچ نے متذکرہ رپورٹ جاری کرنے کے بارے میں ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلہ کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سنگل بنچ کا فیصلہ برقرار رکھا اور پنجاب حکومت کو سانحہ ماڈل ٹائون کی انکوائری رپورٹ پبلک کرنے کی ہدایت کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹائون میں واقع منہاج القرآن سیکرٹیریٹ کے حوالے سے کی گئی کارروائی غیرقانونی تھی۔ حکومت کے معصوم ہونے پر شبہ ہے‘ پولیس کو عوامی تحریک کے حامیوں سے نمٹنے کیلئے فری ہینڈ دیا گیا جس کے نتیجہ میں 14‘ افراد جاں بحق اور 90 سے زائد زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ تو پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور نہ ہی وزیراعلیٰ پنجاب کے سابق پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ نے کمیشن کے روبرو اپنا بیان قلمبند کرایا۔ رپورٹ کے مطابق منہاج القرآن کے کارکنوں نے پولیس پر پتھر پھینکے جس کے جواب میں پولیس نے کارکنوں پر فائرنگ کی جبکہ پولیس نے اس معاملہ میں پنجاب حکومت کے احکام کی تعمیل کی۔
رپورٹ میں 17 جون 2014ء کے وقوعہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ منہاج القرآن انٹرنیشنل سیکرٹیریٹ کے باہر قانونی طور پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں جنہیں ہٹانے کیلئے پولیس نے غیرقانونی کارروائی کی۔ رپورٹ کے صفحہ 65 میں تحریر کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے 23 جون 2014ء کو لاہور سے راولپنڈی لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا جس کے بعد وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے سخت موقف اختیار کیا اور صوبائی انتظامیہ کے اجلاس میں بتایا کہ وہ ہرگز لانگ مارچ نہیں ہونے دینگے۔ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر توقیر نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے ایماء پر منہاج القرآن سیکرٹیریٹ سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا تھا جبکہ ہائیکورٹ نے اپنے حکمنامہ کے تحت ان رکاوٹوں کو جائز قرار دے رکھا تھا۔ ڈاکٹر توقیر کے حکم پر ٹی ایم اے سے گلبرگ ٹائون اور زون2 کے ٹی ایم اوز 16 جون کو رات کے وقت رکاوٹیں ہٹانے موقع پر گئے‘ جس کی کارکنوں نے مزاحمت کی اور پتھر پھینکے۔ اسکے جواب میں پولیس نے کارکنوں پر سیدھی فائرنگ شروع کردی۔ پولیس اہلکاروں کی جانب سے کسی نے بھی اس شخص کی نشاندہی نہیں کی جس کے حکم پر فائرنگ کی گئی۔ انکوائری رپورٹ میں سانحۂ ماڈل ٹائون کی تحقیقات کی روشنی میں حتمی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں اپریشن کیلئے کی گئی منصوبہ بندی پر عملدرآمد کیا گیا جس کے نتیجہ میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جبکہ اس نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔ اس سلسلہ میں اپریشن روکنے سے متعلق وزیراعلیٰ پنجاب کا بیان بعد کا خیال ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کے اعلان کردہ تین سال قبل کے لانگ مارچ کو روکنے کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے جلد بازی میں جو حکمت عملی طے کی گئی یقیناً اسی کی بنیاد پر منہاج القرآن سیکرٹیریٹ کے باہر 17 جون 2014ء کا افسوسناک سانحہ رونما ہوا جس میں سیدھے فائر کے نتیجہ میں 14 انسانی جانیں ضائع ہوگئیں جبکہ اس سانحہ میں زخمی ہونیوالے کئی افراد مستقل طور پر اپاہج ہوچکے ہیں۔ حکومت اس وقت یقیناً سخت دبائو میں تھی اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے جارحانہ طرزعمل اور انکی عوام کو اشتعال دلانے والی سیاست سے جمہوریت کو لاحق ہونیوالے خطرات پر زچ بھی ہو رہی تھی تاہم اس سے یہ مراد نہیں کہ حکومت مخالف آواز کو دبانے کیلئے انتظامی مشینری کے زور پر ایسی حکمت عملی اختیار کرلی جائے جس سے جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑیں۔ اگر حکومت فہم و تدبر سے کام لیتی اور جوابی جارحانہ طرزعمل اختیار نہ کرتی تو یقیناً 17 جون 2014ء والے سانحہ سے بچا جا سکتا تھا۔ اس وقت حکومت کو اپوزیشن کے کسی بڑے دبائو کا سامنا نہیں تھا اور پیپلزپارٹی تو فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی تھی جس نے اپنے دور حکومت میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی کنٹینر تحریک کو خود بھی بھگتا اور بہتر حکمت عملی کے تحت ان کا ڈی چوک کا دھرنا ختم بھی کرایا ہوا تھا۔ اس تناظر میں حکومت چاہتی تو پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے پارلیمانی قائدین کو بیچ میں ڈال کر کسی افہام و تفہیم کی بنیاد پر ڈاکٹر طاہرالقادری کا لانگ مارچ کا پروگرام ختم کراسکتی تھی مگر انکے اعلان کردہ لانگ مارچ کو بزور روکنے کی حکمت عملی طے کرکے حکومت نے خود ہی معاملہ خراب کیا چنانچہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے مصداق تین سال قبل کا سانحۂ ماڈل ٹائون بھی آج دیگر مصائب کی طرح مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے گلے پڑتا نظر آرہا ہے۔
بے شک اس سانحہ کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے لاشوں پر سیاست کی اور حکومت کے ساتھ دیت کی ادائیگی کے عوض معاملہ طے کرلیا۔ اب اگر وہ دوبارہ اس معاملہ پر سیاست کررہے ہیں تو یہ سیاست میں انکے دہرے کردار اور منافقت و مفاد پرستی کا بین ثبوت ہے۔ اسکے باوجود ڈاکٹر باقر نجفی کی انکوائری رپورٹ منظرعام پر آنے سے حکومت کیلئے تو ایک نیا چیلنج درپیش ہوگیا ہے جو اس حوالے سے زیادہ سنگین ہے کہ 14‘ افراد کے قتل کی ایف آئی آر سے خود کو بری الذمہ کرانے کا چیلنج درپیش ہے۔ اگرچہ رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سمیت کسی کو بطور ملزم نامزد نہیں کیا گیا تاہم رپورٹ میں اس سانحہ کی ساری ذمہ داری پنجاب حکومت پر ڈالے جانے سے اس سانحہ کا بوجھ وزیراعلیٰ‘ وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور حکومتی انتظامی مشینری کے دوسرے متعلقہ افراد پر ہی پڑیگا اس لئے حکومت کو محض یہ سوچ کر مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے کہ اس رپورٹ کی عدالتی فیصلے والی حیثیت نہیں ہے۔ یہ سنگین نوعیت کا فوجداری مقدمہ ہے جس میں نامزد ملزمان کی دیت کی ادائیگی کی بنیاد پر مدعی پارٹی سے راضی نامہ کے تحت تو بچت ہوسکتی ہے مگر کیس کے میرٹ کے تحت جس میں یقیناً جسٹس نجفی کی انکوائری رپورٹ سے مدد لی جائیگی‘ ملزمان کا خود کو بری الذمہ قرار دلانا خاصہ مشکل نظر آتا ہے۔ یہ صورتحال حکومت سے یقیناً ہوشمندی کی متقاضی ہے اس لئے جسٹس نجفی کی رپورٹ پر محض سیاسی بیان بازی کے بجائے ٹرائل کورٹ میں دیت کی ادائیگی کی بنیاد پر مدعی پارٹی سے خلاصی پانے کی کوشش کی جائے۔
صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے اگرچہ اس رپورٹ کو نقائص کا مجموعہ قرار دیا ہے اور اس امر کی بھی نشاندہی کی ہے کہ رپورٹ میں انکے اور وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف سمیت کسی کو بھی ذمہ دار نہیں گردانا گیا تاہم محض اس موقف کی بنیاد پر سانحۂ ماڈل ٹائون کا بوجھ انکے سرسے نہیں اتر سکتا۔ پنجاب حکومت کو اس کیس میں بہرصورت قانونی تقاضوں کے مطابق ہی ٹرائل کورٹ میں اپنا دفاع کرنا ہوگا۔ اگر رانا ثناء اللہ کے اس دعوے کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر انہیں تو اس رپورٹ کے حوالے سے فکرمند ہونا ہی نہیں چاہیے تھا اور پہلے دن ہی اس رپورٹ کو منظرعام پر لے آنا چاہیے تھا مگر انکی وزارت قانون کا یہ اقدام بھی تاریخ کے ریکارڈ پر آچکا ہے کہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کے مقابل پنجاب حکومت نے جسٹس خلیل الرحمان کی سربراہی میں ایک دوسرا انکوائری کمیشن تشکیل دے کر اسکی رپورٹ جاری کردی جس میں حکومت کو تجویز کیا گیا تھا کہ وہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو قبول نہ کرے کیونکہ یہ رپورٹ مفاد عامہ کے منافی ہے اور اس سے فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور امن عامہ کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اسی طرح اگر جسٹس نجفی کی رپورٹ سے حکومت کو کوئی خطرہ نہ ہوتا تو یہ رپورٹ منظرعام پر لانے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلہ پر ہی عملدرآمد کردیا جاتا اور اس کیخلاف ہائیکورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر نہ کی جاتی جبکہ اب ہائیکورٹ کے فل بنچ نے پنجاب حکومت کی یہ درخواست مسترد کرکے حکومت کو عدالت عالیہ کے سنگل بنچ کے فیصلہ پر عملدرآمد کی ہدایت کی ہے تو حکومت جسٹس نجفی کی رپورٹ منظر عام پر لانے پر مجبور ہوئی ہے۔ منظرعام پر لائی گئی اس رپورٹ کے حوالے سے اب ڈاکٹر طاہرالقادری نے الزام عائد کیا ہے کہ رپورٹ کے مندرجات میں ردوبدل کرکے اسے منظرعام پر لایا گیا ہے۔ وہ اس بنیاد پر حکومت کو ایک دوسرے لانگ مارچ کی بھی دھمکی دے رہے ہیں جس کیلئے انکے بقول کنٹینر تیار ہوچکا ہے۔
اس وقت جبکہ حکومت پہلے ہی سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے اور شریف فیملی کو میاں نوازشریف کی نااہلیت کے بعد نیب کے ریفرنسوں کا بھی سامنا ہے‘ جسٹس نجفی کی رپورٹ پر حکومت کو کسی نئی سیاسی محاذآرائی کا راستہ نہیں ہموار ہونے دینا چاہیے اورنہ ہی اس معاملہ سے عہدہ برأ ہونے کیلئے پہلے جیسی کوئی غلط حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔
سانحۂ ماڈل ٹائون پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ چاہے عدالتی حکم پر ہی منظرعام پر آئی‘ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ اسکی بنیاد پر اب قومی سانحات و معاملات پر اس سے قبل کی انکوائری اور جوڈیشل رپورٹیں بھی منظرعام پر لائے جانے کی فضا ہموار ہوگئی ہے۔ قوم یقیناً حمودالرحمان کمیشن رپورٹ اور ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ میں متعلقہ قومی سانحات کا باعث بننے والے کرداروں کو بے نقاب ہوتے بھی دیکھنا چاہتی ہے جو متعلقہ رپورٹیں باضابطہ طور پر منظرعام پر لائے جانے سے ہی ممکن ہے۔ اگر ہم نے قومی سدھار کیلئے کوئی تردد کرنا ہے اور آئندہ کیلئے سقوط ڈھاکہ اور ایبٹ آباد اپریشن جیسی قومی ہزیمتوں سے خود کو بچانا ہے تو پھر حکمرانوں اور قومی‘ سیاسی و عسکری قیادتوں سمیت سب کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور ان غلطیوں کا اعادہ نہ ہونے دینے کا عہد کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں پنجاب حکومت نے سانحۂ ماڈل ٹائون پر جسٹس باقر علی نجفی کی رپورٹ جاری کرکے قومی بگاڑ دور کرنے کے حوالے سے اہم پیشرفت کی ہے تاہم اب دودھ میں مینگنیں ڈالنے کے بجائے آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو تقویت پہنچائی جائے اور اسکے ذریعہ ہی اپنی سرخروئی کا راستہ نکالا جائے۔ بصورت دیگر بلیم گیم والی سیاست کے حکومت اور سسٹم پر ہی نہیں‘ ملک کے مستقبل پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔