اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے کہا ہے کہ کشمیریوں کو ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود حق خودارادیت نہ ملنا عالمی برادری کے اجتماعی ضمیر پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ایاد امین مدنی نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے 28 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بامعنی مذاکراتی عمل کے ذریعے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق پائیدار حل نکالا جانا چاہئیے۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اس بیان کے حوالے سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ اس تنظیم کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ کیا اس بیان کے بعد اسکی ذمے داری پوری ہو جاتی ہے؟ اسلامی ممالک کی یہ تنظیم جو کہ دنیا بھر کے 58 مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے جسے عالمی برادری میں مسلم ممالک کے حقوق کے تحفظ کیلئے تشکیل دیا گیا تھا تاکہ انکے ساتھ کوئی بھی نا انصافی یا زیادتی نہ ہو سکے۔ ان میں اتحاد اور یک جہتی کا جذبہ قائم رکھا جا سکے لیکن دور حاضر میں اسلامی تعاون تنظیم کا کردار سوالیہ نظروں سے دیکھا جا رہا ہے جو محض بیان بازی تک محدود رہ گیا ہے۔ اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پامالی کشمیر میں کی جا رہی ہے جہاں بھارتی جارحیت معصوم اور نہتے کشمیریوں کو اپنا نشانہ بنا رہی ہے لیکن اسلامی تعاون تنظیم عملی طور پر اس ضمن میں کچھ نہیں کر رہی۔ پھر فلسطین میں اسرائیلی جارحیت ظلم و استبداد کا باب در باب رقم کئے جا رہی ہے لیکن اسلامی تعاون تنظیم صم بکم بنی بیٹھی ہے۔ ہرزیگوینیا کے شہر سبرینیکا میں ایک ہی دن میں 8000 مسلمانوں کا قتل عام ہوالیکن اسلامی تعاون تنظیم کی زبان اس معاملے پر گنگ رہی اور کوئی مذمتی بیان تک سامنے نہ آیا۔ یہ کیسی مسلم امہ کی نمائندگی ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم اپنا فرض تک بھول چکی ہے۔ اتنی اہم تنظیم میں اپنی اصل ذمہ داریوں کا احساس آخر کب اجاگر ہوگا۔ فعال و متحرک بنانے کیلئے ضروری ہے کہ تمام اسلامی ممالک اپنے باہمی اختلافات بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کو درپیش سنگین مسائل کے حل کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ اگر ایسا ممکن ہو گیا تو کوئی شک نہیں کہ اقوام متحدہ میں بھی اسلامی تعاون تنظیم کے ارکان یک جان نظر آئینگے اور مسلم دنیا کے مسائل اس فورم پر بہتر انداز میں اٹھانے کی پوزیشن میں ہونگے لیکن اس کیلئے اسلامی ممالک کا باہمی اتحاد اور اسلامی تعاون تنظیم کی فعالیت لازم و ملزوم ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024