امریکی وزیر دفاع کی وزیراعظم اور آرمی چیف سے الگ الگ ملاقاتیں اور دہشتگردوں کیخلاف کوششیں دوگنا کرنیکا تقاضا
امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اسلام آباد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقاتوں کے دوران پاکستان کو تحکمانہ لہجے میں باور کرایا ہے کہ کئی ہائی پروفائل دوروں کے باوجود پاکستانی رویہ میں کوئی پریکٹیکل تبدیلی نہیں دیکھی۔ ’’دی نیشن‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے امریکہ کی جانب سے دہشت گردوں کیخلاف بہترین نتائج کے تقاضے پر مزید وقت طلب کیا اور یقین دلایا کہ اسلام آباد واشنگٹن کے ساتھ ڈبل گیم نہیں کھیل رہا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع کو بتایا کہ پاکستانی قوم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے۔ امریکی سفارتخانہ کے ترجمان کے مطابق امریکی وزیر دفاع نے جی ایچ کیو میں پاکستان کے آرمی چیف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی سے جبکہ وزیراعظم ہائوس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور اس دوران دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی قربانیوں کو سراہا۔ جم میٹس کے بقول پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن عمل میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے دوران ملاقات اس امر کا تقاضا کیا کہ پاکستان دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں اپنی کوششوں کو دوگنا کرے کیونکہ افغانستان میں امن سے خطے میں استحکام آئیگا اور سکیورٹی بہتر ہوگی۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں نے امریکی وزیر دفاع پر واضح کیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں جبکہ پوری قوم دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پرعزم ہے۔ وزیراعظم نے افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے کے امریکی عزم کو سراہا۔ جنرل میٹس نے کہا کہ انکے دورے کا مقصد پاکستان کے ساتھ مثبت‘ مستقل اور طویل مدت شراکت داری پیدا کرنے کیلئے مشترکہ نکات تلاش کرنا تھا۔ آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف نے دوران ملاقات بھارت کی جانب سے پاکستان کیخلاف افغان سرزمین استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور اسی طرح انہوں نے افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر بھی تشویش ظاہر کی اور باور کرایا کہ ہم نے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کردی ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ڈومور کا امریکی مطالبہ یکسر مسترد کردیا اور کہا کہ پاکستان سے بڑھ کر کسی ملک نے قربانیاں نہیں دیں۔
وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اور وزیر دفاع خرم دستگیر جو امریکی وزیر دفاع کی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کے موقع پر انکے ہمراہ تھے‘ جم میٹس کے پانچ گھنٹوں پر محیط اس دورے سے اس حوالے سے مثبت نتائج کی توقع کررہے ہیں کہ امریکہ نے دہشتگردی کیخلاف ہماری قربانیوں کا اعتراف کیا ہے اور اب ہم طعنوں اور دھمکیوں سے نکل کر تعاون کی طرف آگئے ہیں جبکہ فی الحقیقت امریکی وزیر دفاع کے اس دورے کے دوران پاکستان سے ڈومور کے امریکی تقاضوں میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی اور جم میٹس نے یہ کہہ کر پاکستان کو اپنا ’’چال چلن‘‘ درست کرنے کی ہی دھمکی دی ہے کہ انہوں نے پاکستانی رویہ میں ابھی تک کوئی پریکٹیکل تبدیلی نہیں دیکھی۔ صرف یہی نہیں‘ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو نے تو گزشتہ روز کیلیفورنیا میں ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو براہ راست دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ اس نے دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کیخلاف کارروائی نہ کی تو واشنگٹن خود انہیں تباہ کرنے پر مجبور ہو جائیگا۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی عین اس وقت دی جب امریکی وزیر دفاع اسلام آباد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کررہے تھے جسکے بعد انہوں نے جی ایچ کیو میں پاکستان کی عسکری قیادتوں سے ملاقات کی۔
پاکستان یقیناً امریکہ سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا اور پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کے تحت وہ امریکہ کے ساتھ تعلقداری برقرار رکھنا چاہتا ہے کیونکہ یہ تعلقداری دونوں ممالک کے مابین سات دہائیوں کے مراسم پر محیط ہے تاہم ہمیں بھی اپنی آزادی اور خودمختاری اتنی ہی عزیز ہے جتنی امریکہ یا کسی اور ملک کو ہو سکتی ہے۔ اگر امریکہ کی جانب سے یہ باور کرایا جاتا رہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر مؤثر کارروائی نہ کی تو امریکہ خود آکر کارروائی کریگا تو یہ درحقیقت پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے کی دھمکی ہے چنانچہ اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی وزیر دفاع کو باور کرایا ہے کہ ہماری سرزمین پر دہشت گردوں کا کوئی محفوظ ٹھکانہ موجود نہیں جبکہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں اور بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ افغان سرزمین کو ہمارے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کررہی ہے۔ اصولی طور پر تو ہماری سول قیادت کو بھی افغان امن عمل پر بات چیت کے دوران امریکی وزیر دفاع کو ان بھارتی گھنائونی سازشوں سے آگاہ کرنا چاہیے تھا جو بالخصوص افغان امن عمل کیلئے بھارت کو امریکہ کی جانب سے سونپے گئے کردار کی بنیاد پر شدومد کے ساتھ کی جارہی ہیں کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ نئی افغان پالیسی کی‘ جس کے تحت بھارت کو افغان امن عمل کے نام پر پاکستان کی نگرانی کا کردار سونپا گیا ہے‘ بنیاد پر ہی بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران بلوچستان میں ہونیوالی ٹارگٹ کلنگ اور پشاور میں ایڈیشنل آئی جی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد زرعی ڈائریکٹوریٹ میں گھنائونی دہشتگردی اس کا کھلا ثبوت ہے کیونکہ ان وارداتوں کیلئے دہشت گردوں کے افغانستان سے آنے اور ان وارداتوں کے دوران انکے افغانستان میں موجود اپنے سہولت کاروں سے رابطے ہونے کے ٹھوس شواہد ہماری ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا دہرا معیار رکھنے والے امریکہ کو ہمارے حکمرانوں کی جانب سے یہ یقین دلایا جارہا ہے کہ اسلام آباد واشنگٹن کے ساتھ ڈبل گیم نہیں کھیل رہا۔ اسکے برعکس ٹرمپ انتظامیہ تو پاکستان کے ساتھ اعلانیہ ڈبل گیم کھیل رہی ہے جس نے افغان جنگ میں اپنے فرنٹ لائن اتحادی قرار دیئے گئے پاکستان کے مقابل اسکے کھلے دیرینہ دشمن بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دیا۔ اسکے ساتھ جنگی‘ دفاعی‘ ایٹمی تعاون کے معاہدے کئے اور اسے افغانستان میں بحالیٔ امن کا کردار سونپا جبکہ افغان جنگ سے بھارت کا سرے سے کوئی سروکار ہی نہیں رہا۔ ٹرمپ کی اعلان کردہ نئی افغان پالیسی میں بھارت کو سونپے گئے کردار کی امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے اپنے دورۂ پاکستان کے موقع پر یہ کہہ کر وضاحت کی تھی کہ دہشت گردوں کے تعاقب میں بھارت افغانستان ہی نہیں‘ پاکستان کی بھی نگرانی کریگا اور ضرورت پڑنے پر امریکہ خود بھی پاکستان میں دہشت گردوں کیخلاف کارروائی عمل میں لائے گا۔ ٹلرسن نے اپنے اس دورے کے دوران پاکستان کیلئے یہ ہدایت نامہ بھی جاری کیا کہ وہ حقانی گروپ اور طالبان سے اپنا تعلق ختم کرے اور اپنے روشن مستقبل کا سوچے۔ دورۂ اسلام آباد کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے امریکی سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے ارکان سینٹ کو فخریہ اندازمیں بتایا تھاکہ انہوں نے پاکستان پر واضح کردیا ہے کہ اسے ملک میں وسیع پیمانے پر استحکام لانے کا آغاز کرنا ہوگا جس کیلئے اسکی سرزمین پر دہشت گردوں کی مخصوص پناہ گاہوں کا خاتمہ ضروری ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے دورۂ اسلام آباد کے ایک ماہ بعد اب امریکی وزیر دفاع اسلام آباد آکر پاکستان کو یہ باور کرارہے ہیں کہ انہوں نے سابقہ امریکی ’’ہدایات‘‘ کی روشنی میں پاکستانی رویہ میں کوئی پریکٹیکل تبدیلی نہیں دیکھی تو اس سے پاکستان کیلئے یہی پیغام ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کیخلاف امریکی اور بھارتی کارروائی کیلئے تیار رہے۔ جم میٹس نے بے شک دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہا اور بے شک انہوں نے اپنے لب و لہجے میں ٹرمپ‘ ٹلرسن‘ پنس اور جوزف ڈنفورڈ جیسی کرختگی اختیار نہیں کی ہوگی جس پر ہمارے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو پاکستان امریکہ تعلقات کی بحالی کیلئے انکی جانب سے خوشگوار ہوا کا جھونکا ملتا محسوس ہوا مگر انہوں نے بھی پاکستان کے ساتھ ڈومور کے تقاضوں میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
یہ درست ہے کہ علاقائی امن و سلامتی کا افغانستان میں امن کی بحالی پر ہی دارومدار ہے اور خود ہمارا امن و استحکام بھی افغانستان کے امن و استحکام کے ساتھ منسلک ہے اس لئے افغانستان میں امن کی بحالی ہمارے اپنے مفاد میں ہے جس کیلئے پاکستان ہر علاقائی اور عالمی فورم پر کوششیں بروئے کار لارہا ہے اور کابل انتظامیہ کو بھی اسی تناظر میں افغان سرزمین پر دہشت گردوں کیخلاف مؤثر اپریشن کیلئے معاونت کی پیشکش کی جاتی ہے مگر کابل انتظامیہ کی جانب سے اس کا کبھی مثبت جواب نہیں ملا بلکہ افغان صدر اشرف غنی تو ہمارے ساتھ امریکی اور بھارتی لب و لہجہ میں ڈومور کے تقاضے کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر امریکہ کو دہشت گردی کی جنگ میں دی گئی ہماری قربانیوں کا احساس ہے تو اسے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے جاری اپریشن ردالفساد‘ کومبنگ اپریشن اور اپریشن خیبر4 کے ذریعہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے والی کامیابیوں کا بھی ادراک ہونا چاہیے جس کی روشنی میں پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کی تکرار بھلا کیا معنی رکھتی ہے۔ اگر پاکستان کی بیش بہا قربانیوں اور کامرانیوں کے باوجود اسے احساس دلایا جارہا ہے کہ اسکے رویے میں کوئی پریکٹیکل تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی تو پھر یہ افغانستان میں امن کی بحالی کا نہیں‘ بھارتی خواہش پر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈا ہے۔ اسی تناظر میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال اپنے دورۂ امریکہ کے موقع پر واشنگٹن انتظامیہ کو پاکستان کی جانب سے ’’نومور‘‘ کا پیغام دیتے رہے ہیں تو اب امریکی وزیر دفاع کے دورۂ اسلام آباد کے موقع پر بھی ہماری سول قیادتوں کی جانب سے واشنگٹن انتظامیہ کو ایسا ہی ٹھوس جواب ملنا چاہیے تھا۔ بے شک آرمی چیف جنرل باجوہ نے جم میٹس کو ’’نومور‘‘ والا ٹھوس پیغام ہی دیا تاہم یہی بات ہماری سول قیادتوں کی جانب سے کی جاتی تو وہ زیادہ مؤثر ہوتی۔ ہمیں امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر قطعاً اعتراض نہیں مگر اسے اپنی مجبوری بنانا اسکے سامنے اپنی کمزوری ظاہر کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہمیں ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اپنے تشخص اور وقار پر بہرصورت کوئی حرف نہیں آنے دینا چاہیے۔