اپوزیشن کی 9 جماعتوں کا 15 نکاتی ٹی او آرز پر اتفاق‘ بااختیار جوڈیشل کمیشن کیلئے قانون سازی کا تقاضا اور حکمران جماعتوں کی حکمت عملی
اپوزیشن کی 9 جماعتوں نے پانامہ پیپرز پر عدالتی کمیشن کیلئے متفقہ طور پر 15 نکاتی ٹی او آر تیار کرلئے ہیں جن میں احتساب کیلئے وزیراعظم نوازشریف اور انکے خاندان کے ارکان کو فوکس کرتے ہوئے سب سے پہلے ان کیخلاف تحقیقات کا تقاضا کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ تحقیقات تین ماہ کے اندراندر مکمل ہوں جس کے بعد دوسروں کا احتساب شروع کرکے ایک سال میں مکمل کیا جائے‘ اس سلسلہ میں سینٹ کے قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن کی اقامت گاہ پر منعقدہ اپوزیشن جماعتوں کے نمائندہ اجلاس میں بااختیار کمیشن کی تشکیل کیلئے باقاعدہ قانون سازی کا تقاضا کیا گیا اور کہا گیا کہ اس مقصد کیلئے پارلیمنٹ میں ایکٹ منظور کرایا جائے۔ مجوزہ ٹی او آرز میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اور انکے خاندان کے ارکان خود کمیشن کے روبرو پیش ہوں اور خود پر لگنے والے الزامات غلط ثابت کریں۔ اسی طرح میاں نوازشریف 1985ءسے 2016ءتک کی اپنی پراپرٹیز کی تفصیلات فراہم کریں اور اس امر سے بھی آگاہ کریں انکے اور انکے اہل خانہ کے ذرائع آمدن کیا ہیں‘ کن بنکوں میں رقوم رکھی گئی ہیں اور ان پر انکم ٹیکس ادا کیا گیا یا نہیں‘ مجوزہ ٹی او آرز میں وزیراعظم سے آف شور اکاﺅنٹس میں بھجوائی گئی رقوم کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کا بھی تقاضا کیا گیا ہے۔ مجوزہ ٹی او آرز کے مطابق جوڈیشل کمیشن عالمی فرانزک آڈٹ کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی مقرر کر سکے گا جو آف شور کمپنیوں کیلئے رقم کی مکمل چھان بین کریگی جبکہ نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہونگے۔ اعتزاز احسن کے بقول ٹی او آرز متفقہ طور پر تیار کئے گئے ہیں تاہم وزیراعظم کے استعفیٰ کے معاملہ پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔
پانامہ پیپرز کے حوالے سے تمام متعلقہ افراد کا احتساب تو پوری قوم کا مطمع¿ نظر ہے اور اسی تناظر میں قوم کے دلوں میں امید کی کرن بھی پیدا ہوئی تھی کہ اب قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کرنے اور اس لوٹ مار سے حاصل کیا گیا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے وہاں اپنے کاروبار چمکانے والے تمام حکمران اشرافیہ طبقات کے بے لاگ احتساب کی فضا ہموار ہو گئی ہے جس کے نتیجہ میں احتساب کا عمل شروع ہو گا تو معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کا بھی کوئی راستہ نکل آئیگا۔ پانامہ پیپرز کے افشاءکے بعد وزیراعظم نوازشریف اور انکے خاندان کے متعلقہ افراد نے تو خود کو رضاکارانہ طور پر احتساب کیلئے پیش کر دیا جس کی خاطر وزیراعظم نے پہلے کسی سابق جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا تاہم جب اس کیخلاف اپوزیشن بالخصوص عمران خان کی جانب سے جارحانہ سیاست شروع کی گئی اور وزیراعظم اور انکے خاندان پر الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ شروع کرتے ہوئے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا تقاضا کیا جانے لگا تو وزیراعظم نوازشریف نے لندن میں اپنے طبی چیک اپ کے بعد ملک واپس آتے ہی عدلیہ کے کسی حاضر سروس جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو مراسلہ بھجوانے کا اعلان کردیا جبکہ وزیراعظم کی نشری تقریر کے بعد وفاقی وزارت قانون کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو مراسلہ بھجوا بھی دیا گیا۔ وزیراعظم نے اس مجوزہ جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) میں اب تک قرضے معاف کرانے والوں کیخلاف تحقیقات کا معاملہ بھی شامل کیا جس پر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے قائدین پھر معترض ہوئے اور ٹرمز آف ریفرنس کو صرف وزیراعظم اور انکے خاندان تک محدود رکھنے کا تقاضا کرتے ہوئے اپوزیشن کی جانب سے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) خود تیار کرنے کا اعلان کردیا اور اسکے ساتھ ہی وزیراعظم کے مستعفی ہونے کیلئے بھی دباﺅ بڑھانا شروع کر دیا گیا۔ اس سلسلہ میں عمران خان اسلام آباد اور لاہور میں پبلک جلسے بھی منعقد کرچکے ہیں جبکہ ان جلسوں میں خواتین کے ساتھ ہونیوالی بدتمیزی کیخلاف حکمران جماعتوں کی جانب سے پراپیگنڈا تیز ہونے کے باعث انہوں نے اپنا فیصل آباد کا جلسہ منسوخ کر دیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اپوزیشن تحریک کا دباﺅ کم کرنے کیلئے خود کو اپنے خاندان سمیت چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سپرد کرنے کا بھی اعلان کردیا اور یہ بھی باور کرادیا کہ چیف جسٹس انکی ذات سے احتساب کے عمل کا آغاز کر سکتے ہیں۔ جب اس پر بھی اپوزیشن کی انہیں دباﺅ میں رکھنے کی حکمت عملی تبدیل نہ ہوئی تو حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور اسکے دوسرے عہدیداروں نے عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کی بلیم گیم کا جارحانہ انداز میں جواب دینے کا فیصلہ کیا چنانچہ اب خود وزیراعظم بھی اپوزیشن کیخلاف سخت جارحانہ موقف اختیار کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے گزشتہ روز بنوں میں اپنی حکومتی حلیف جمعیت علماءاسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان اور سابق وزیراعلیٰ کے پی کے محمداکرم درانی کی معیت میں جلسہ¿ عام سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خلاف جاری اپوزیشن کی بلیم گیم کو چیلنج کیا اور باور کرایا کہ میں انکے کہنے پر گھر چلا جاﺅں؟ یہ منہ اور مسور کی دال۔ پھر انہوں نے یہ کہہ کر بھی اپوزیشن کو چیلنج کیا کہ مخالف نہیں جانتے‘ ان کا کس سے پالا پڑا ہے۔ اسی جلسے میں مولانا فضل الرحمان نے بھی عمران خان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اپنے صوبے میں چوہوں سے ڈرنے والوں نے پنجاب کے شیروں کو للکارا ہے جبکہ اکرم درانی نے مزید جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ہم رائے ونڈ جانے کا اعلان کرنیوالوں کی ٹانگیں توڑ دینگے اور وزیراعظم حکم دیں تو خیبر پی کے حکومت کو بھی گرادیں گے۔
عمران خان کے جلسوں کے توڑ میں وزیراعظم نوازشریف نے بھی اپنے پے درپے جلسوں کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کا آغاز خیبر پی کے سے کیا گیا ہے تو اس سے بادی النظر میں اپوزیشن کو یہی پیغام دینا مقصود ہے کہ وہ سیاسی میدان میں آکر حکمران مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کرے۔ چنانچہ پانامہ پیپرز کے افشاءکے بعد حقیقی اور بے لاگ احتساب کیلئے ہموار ہونیوالی فضا کو اپوزیشن نے صرف حکمران خاندان کو فوکس کرکے خود ہی خراب کر دیا ہے۔ اس وقت اپوزیشن اور حکمران جماعتیں جس طرح باہمی کشیدگی اور ٹکراﺅ کی سیاست کی راہ اختیار کررہی ہیں اسکے پیش نظر بے لاگ احتساب کا تقاضا تو شاید ہی کبھی پورا ہو پائے گا مگر سسٹم کا مردہ خراب کرنے کی فضاءضرور استوار ہو جائیگی۔
اپوزیشن کی جانب سے اگرچہ متفقہ طور پر جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز مرتب کرلئے گئے ہیں تاہم وزیراعظم کے استعفے کے ایشو پر اپوزیشن کی متعدد جماعتوں اور خود پیپلزپارٹی کے اندر بھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا جس کا اعتراف گزشتہ روز بیرسٹر اعتزاز احسن نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ چنانچہ جارحانہ تحریک کے ذریعے وزیراعظم اور انکی حکومت کو دباﺅ میں رکھنے کی حکمت عملی تو اب کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی جبکہ بااختیار جوڈیشل کمیشن کیلئے پارلیمنٹ سے باضابطہ طور پر قانون سازی کرانے کا تقاضا کرکے اپوزیشن نے کمیشن کی تشکیل کا معاملہ بھی لٹکادیا ہے۔ اس وقت حقیقی صورتحال یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے حکومتی مراسلہ پر چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے پراسس کا آغاز ہی نہیں کیا جس کیلئے سپریم کورٹ کے ان فاضل سینئر ججوں کی اسلام آباد میں عدم موجودگی کا جواز موجود ہے جن کی مشاورت سے فاضل چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے جبکہ عمران خان کی الزام تراشی کی سیاست کے باعث چیف جسٹس خود بھی جوڈیشل کمیشن کیلئے عدلیہ میں سے کوئی فاضل جج دینے کے معاملہ میں خاصے محتاط ہیں جو پہلے ہی ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دے چکے ہیں کہ حکومت کے پاس کسی معاملہ کی انکوائری کیلئے عدلیہ کے علاوہ دوسرے ادارے بھی موجود ہیں۔ اگر بالفرض چیف جسٹس سپریم کورٹ حکومتی مراسلہ کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر آمادہ بھی ہوجاتے ہیں تو بھی مستقبل قریب میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ اپوزیشن نے جوڈیشل کمیشن کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کا تقاضا کرکے کمیشن کی فوری تشکیل کا امکان معدوم کردیا ہے۔ اب مجوزہ ایکٹ کی دونوں ایوانوں میں منظوری ہو گی تو وہ ایکٹ کی شکل میں نافذ ہو پائے گا۔ کیا محاذآرائی کی موجودہ فضاءمیں اپوزیشن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مجوزہ ایکٹ کی منظوری کی راہ ہموار کر پائے گی‘ فی الحال تو یہ ناممکنات میں نظر آتا ہے۔
اگر اپوزیشن کو بھی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے اس حقیقت کا دراک ہے تو اسکی جارحانہ تحریک سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بے لاگ احتساب کا عمل شروع کرانا اس کا مطمع¿ نظر ہی نہیں ہے بلکہ وہ حکمرانوں کو رگیدتے ہوئے سیاسی منافرتوں اور کشیدگی کی ایسی فضا پیدا کرنا چاہتی ہے جس سے بالآخر ماورائے آئین اقدام کا سوچنے والوں کو جمہوریت کی بساط الٹانے کا موقع مل جائے۔ اگر اپوزیشن کی تحریک کا یہی مطمع¿ نظر ہے تو پھر سیاست دانوں کی خود غرضیوں اور منافقتوں سے عاجز آئے عوام کا سسٹم پر کبھی اعتماد قائم نہیں ہو پائے گا۔ اس صورتحال میںقوم کا بے لاگ احتساب کا خواب تو اب بھی شرمندہ¿ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ چنانچہ جمہوریت کے نام لیوا سیاست دانوں کو خود ہی طے کرلینا چاہیے کہ موجودہ صورتحال میں جمہوریت کو خراب کرنے اور بے لاگ احتساب سے عوام کو مایوس کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی۔