مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان اسلحہ کی دوڑ میں شامل نہیں، بھارت نے ایٹمی صلاحیت بڑھائی تو پاکستان بھی اپنے پروگرام پر نظرثانی کرےگا۔
پاکستان ایٹمی عدم پھیلاﺅ سے متعلق ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہا ہے، ایٹمی پروگرام کیلئے ایک مو¿ثر کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام موجود ہے۔ یہ نظام نیوکلیئر سپلائرز گروپ‘ میزائل ٹیکنالوجی پروگرام کے عالمی معیار کے مطابق ہے۔ مختلف ایٹمی تحقیقی تھنک ٹینکس کی رپورٹس کے مطابق بھارت کو افزودہ ایٹمی مواد کی مد میں دی جانےوالی رعایتیں خطے میں عدم استحکام اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ کا باعث ہوں گی۔ چند ہفتے قبل امریکہ کی آرمز کنٹرول اور انٹرنیشنل سکیورٹی کی نائب سیکرٹری روز گاٹ مائلر نے سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کو بتایا تھا کہ اوباما انتظامیہ نے بھارت کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں پیش رفت دیکھی ہے۔ ایسی رپورٹیں پاکستان کےلئے تشویشناک ہیں۔ پاکستان نے کم از کم ڈیٹرنس پر اپنا ایٹمی پروگرام روک رکھا ہے۔ بھارت کے ایٹمی پروگرام میں اضافے اور عالمی برادری کی طرف سے اس اضافے کو نظرانداز کرنے پر پاکستان اپنے کم از کم ڈیٹرنس پر ایٹمی پروگرام کو روکنے کی پالیسی پر نظرثانی کرنے میں حق بجانب ہے۔ امریکہ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست بھی دلانا چاہتا ہے۔ جس کا بھارت کسی طور حقدار نہیں ہے۔ خود امریکہ کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک ہوتا ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام کرنے پر تیار نہیں‘ اسکے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری ہے اور پاکستان میں تو وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی بھی کرتا ہے۔ اقوام متحدہ میں جی فور فارمولے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جس کے تحت چار ممالک جاپان‘ برازیل‘ جرمنی اور بھارت ایک دوسرے کیلئے سلامتی کونسل میں مستقل نشست کی لابنگ کر رہے ہیں۔ اس فارمولے کو اقوام متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے مسترد کرتے ہوئے اس کو خود غرضی پر مبنی فارمولا قرار دیا ہے۔ انکی طرف سے اس فارمولے پر بروقت ردعمل سامنے آیا۔ پاکستان کو موثر اور فعال سفارتکاری کے ذریعے مستقل ارکان میں اضافے کی اس شرط پر حمایت کرنی چاہئے کہ عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کو بھی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنایا جائے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024