قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے پر سپریم کورٹ کی تشویش اور آرمی چیف کا دہشتگردی سے پاک پاکستان کیلئے عزم----- عملیت پسندی سے عاری حکومتی پالیسیاں قومی مایوسی بڑھا رہی ہیں
سپریم کورٹ نے این جی اوز کی رجسٹریشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرانے میں قطعی غیرسنجیدہ ہیں‘ عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکی جائے۔ مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے فاضل بینچ نے متذکرہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے باور کرایا کہ قومی ایکشن پلان پر پانچوں حکومتیں متحرک ہوئی تھیں لیکن پھر سارا نظام جمود کا شکار ہو گیا۔ اگر اس پلان پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا تو حکمران کہہ دیں کہ یہ محض کاغذی کارروائی ہے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ پلان بنا کر اس پر عمل نہ کرنا عوام کے ساتھ بڑا مذاق ہے۔ اس پلان کے تحت ایک ٹکے کا کام بھی نہیں ہو رہا۔ اس پلان کے تحت دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنا تھی مگر این جی اوز کو اب بھی ملکی اور غیرملکی فنڈنگ ہو رہی ہے۔ چھ ماہ گزر گئے‘ این جی اوز کیخلاف کیا کارروائی کی گئی۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نااہلی اور غیرمستعدی میں صوبائی حکومتوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ شدت پسندی میں سب سے زیادہ متاثر ہونیوالے صوبے خیبر پی کے کے عوام کو توقع تھی کہ نئی حکومت آنے کے بعد انکی جان و مال کی حفاظت کے بہتر اقدامات کئے جائینگے مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ عدالت نے باور کرایا کہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے معاملہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک داعش جیسی تنظیم پر بھی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ مشکوک این جی اوز کی فنڈنگ رکے گی تو دہشت گرد خود بخود مر جائینگے۔ اگر ہم حالت جنگ میں ہیں تو این جی اوز کی فنڈنگ کے معاملات کو دیکھنا ہوگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو دہشت گردی کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے جس نے ہزاروں قیمتی جانوں اور قومی و نجی املاک کے ضیاع کے علاوہ قومی معیشت کی بنیادیں بھی ہلا دی ہیں جبکہ دہشت گردوں کی پیدا کردہ خوف و ہراس کی فضا میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور بیرونی دنیا میں پاکستان کا تشخص ایک قطعی غیرمحفوظ ملک والا بن گیا ہے۔ اس تناظر میں ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرکے مستقل بنیادوں پر امن و امان قائم کرنا ہی حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے جن کی اپنی رٹ اور گورننس بھی دہشت گردوں کے ہاتھ چیلنج ہوتی رہتی ہے۔ حکومت کی مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی کوششوں میں ناکامی کے بعد گزشتہ سال عساکر پاکستان نے شمالی وزیرستان میں اپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا تھا جس کی بعدازاں حکومت نے پارلیمنٹ سے توثیق کرائی اور اس طرح اس اپریشن پر حکومتی اور عسکری قیادتیں یکسو ہوئیں جبکہ آرمی پبلک سکول پشاور میں سفاکانہ دہشت گردی کے سانحہ نے حکومت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کو دہشت گردی کی جنگ میں عسکری قیادتوں کے ساتھ متحد و یکسو کر دیا۔ حکومت نے دہشت گردی کی جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کی جامع قومی پالیسی تشکیل کیلئے یکے بعد دیگرے تین آل پارٹیز کانفرنسیں طلب کیں اور قومی قیادتوں کے اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا جس کے تحت قومی اسمبلی میں 21ویں آئینی ترمیم کا بل لایا گیا اور اس میں دہشت گردوں کیخلاف ایکشن کے پیرامیٹرز متعین کئے گئے۔ اسی آئینی ترمیم کے تحت آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے فوجی عدالتیں تشکیل دی گئیں اور اندرون و بیرون ملک فنڈنگ حاصل کرنیوالی این جی اوز کی سکروٹنی کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا۔
سکیورٹی فورسز نے تو ایک سال ایک ماہ سے جاری اپریشن ضرب عضب میں بلاشبہ نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں جس کے دوران شمالی وزیرستان‘ خیبر ایجنسی‘ پشاور اور ملک کے دوسرے علاقوں میں قائم دہشت گردوں کے بیسیوں محفوظ ٹھکانے انکے جمع شدہ گولہ بارود سمیت تباہ کئے گئے ہیں اور اس اپریشن میں اب تک سینکڑوں ملکی اور غیرملکی دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جن میں دہشت گردوں کے کئی اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ روز بھی شمالی اور جنوبی وزیرستان کے دورے کے دوران اپریشن میں مصروف جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ دہشت گردی سے پاک پاکستان کے مقصد کے حصول تک ہم نہیں رکیں گے اور دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ انہیں پیسہ فراہم کرنیوالوں کیخلاف بھی ملک بھر میں اپریشن جاری رہے گا۔ آرمی چیف کے اس عزم کی بدولت قوم میں دہشت گردی کے ناسور سے مستقل نجات کی امید بندھ چکی ہے تاہم اس جنگ میں سرخروئی کیلئے حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں میں یکسوئی اور ہم آہنگی ضروری ہے۔ دہشت گردی کیخلاف صرف شمالی وزیرستان میں ہی محاذ گرم نہیں بلکہ کراچی اور بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے پھیلتے ناسور کے تدارک کیلئے اسکے پس پردہ محرکات کا سدباب کرنا اور دہشت گردوں کے سرپرستوں اور حامیوں پر بھی سخت ہاتھ ڈالنا ضروری ہے جس کیلئے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کو اس حوالے سے ہی تشویش ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں ہوگا‘ جس کیلئے سپریم کورٹ کے بقول وفاقی اور صوبائی حکومتیں قطعاً سنجیدہ نظر نہیں آتیں تو پھر دہشت گردی کے ناسور سے مستقل نجات کا خواب بھی کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ یقیناً تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اگر سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرکے ان کا نیٹ ورک توڑنے میں مصروف ہیں تو اسکے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی فنڈنگ اور انہیں اسلحہ فراہم کرنیوالے انکے سرپرستوں کی حوصلہ شکنی کیلئے حکومتی مشینری کا فعال ہونا بھی ضروری ہے۔ اس معاملہ میں اگر سپریم کورٹ حکومتی کارکردگی سے مایوس نظر آرہی ہے جس کے بقول اب تک نیشنل ایکشن پلان پر ایک دھیلے کا بھی کام نہیں ہوا تو بلاشبہ یہ پوری قوم کی مایوسی ہے جس نے دہشت گردی کے خاتمہ اور مستقل قیام امن کیلئے حکومت اور عسکری قیادتوں سے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کے روبرو اٹارنی جنرل سلمان اسلم کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی گئی اس میں زیادہ تر اپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کا ہی تذکرہ کیا گیا ہے جس کے مطابق اس اپریشن کے دوران اب تک 517 دہشت گرد ہلاک اور 912 گرفتار ہوئے ہیں جبکہ 651 افراد کو مفرور قرار دیا گیا ہے رپورٹ میں اپریشن ضرب عضب اور کراچی میں جاری ٹارگٹڈ اپریشن کا جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اسکے مطابق اب کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آگئی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ میں 44 فیصد‘ قتل کے عمومی واقعات میں 37 فیصد‘ دہشت گردی میں 46 فیصد اور ڈاکہ زنی کی وارداتوں میں 23 فیصد کمی آئی ہے۔ اسی طرح رپورٹ میں جو دوسری کامرانیاں بیان کی گئی ہیں‘ وہ بھی اپریشن ضرب عضب اور ٹارگٹڈ اپریشن سے ہی منسلک ہیں مگر اسکے باوجود ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں جاری ہیں تو اس سے اس امر کی ہی تصدیق ہوتی ہے کہ دہشت گردوں کے سرپرستوں اور معاونین پر ابھی تک ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا جن میں شدت پسندوں کی فنڈنگ کرنیوالی این جی اوز کے معاملات زیادہ سنگین ہیں۔
اگرچہ اب وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان کی ہدایت پر این جی اوز کی ازسرنو رجسٹریشن کیلئے سکروٹنی کا عمل جاری ہے تاہم اس حوالے سے جو حکومتی موقف سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا ہے وہ تو روایتی خانہ پری والا ہی نظر آتا ہے اور قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے حکومتی سنجیدگی کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے قائم ادارے نیکٹا کو فعال بنانے کیلئے حالیہ قومی بجٹ میں ایک دھیلا بھی مختص نہیں کیا گیا۔ اسی بنیاد پر فاضل عدالت عظمیٰ کو یہ بھی باور کرانا پڑا کہ وزیراعظم ہائوس کے تو سالانہ اخراجات بڑھا کر 15 کروڑ روپے کر دیئے گئے ہیں‘ مگر دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ اگر دہشت گردی سے ملک و قوم کا اتنا بھاری اور ناقابل تلافی نقصان ہونے کے باوجود حکمران اس ناسور سے قوم کو نجات دلانے میں مخلص اور سنجیدہ نہیں تو پھر قوم ان سے اور کس معاملہ میں توقعات وابستہ کریگی جبکہ وہ توانائی کے بحران پر قابو پانے اور لوگوں کے روٹی‘ روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل ختم کرنے میں بھی قطعی ناکام ہو چکے ہیں۔ حکومت نے دہشت گردی کا خاتمہ اپنی اولین ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے تو اس کیلئے سنجیدگی اور عملیت پسندی کا مظاہرہ بھی کیا جائے کیونکہ حکومتی بے عملی ہی سسٹم کی ناکامی اور اس پر قومی عدم اعتماد کی بنیاد رکھتی ہے۔