دنیا میں گزشتہ روز آزادی صحافت کا دن منایا گیا۔ صحافی پاکستان سمیت دنبا بھر میں غیر محفوظ ہیں۔ ایک مضبوط جمہوریت کےلئے جس شفافیت کو ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ وہ ایک آزاد میڈیا کے بغیر ممکن نہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں صحافیوں پر حملے انسانیت پر حملے کے مترادف قرار دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سب ہی غیر محفوظ ہونے کی صورتحال سے دو چار ہیں وہاں صحافی برادری کو زیادہ سنگین اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 2000ءسے اب تک 90 سے زائد صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صحافی ریاستی اور غیر ریاستی ارکان کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کیلئے آزادانہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ 70ءاور 80ءکی دہائی میں بات صرف دھمکیوں اور جسمانی تشدد تک محدود تھی۔ اب نوبت ان کے اغواءاور قتل تک پہنچ چکی ہے جس سے نہ صرف خود صحافی بلکہ ان کے اہلخانہ بھی خوف و ہراس کا شکار رہتے ہیں۔ صحافیوں کیخلاف تشدد انکے قتل میڈیا ہاﺅسز پر حملوں کی وجہ سے پاکستان کو صومالیہ اور شام کے بعد صحافیوں کےلئے تیسرا بڑا خطرناک اور غیر محفوظ ملک قرار دیا جا رہا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ 2002ءکے اوائل میں وال سٹریٹ جرنل کے رپورٹر ڈینٹل پرل کے قاتل تو پکڑ لئے گئے لیکن کسی ایک پاکستانی صحافی کا قاتل آج تک پکڑا نہ جا سکا۔ حکومت صحافیوں اور صحافتی اداروں کا تحفظ بھی یقینی بنائے تاکہ ان کی مشکلات میں کمی آ سکے جن کا انہیں برسوں سے سامنا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024