سندھ رینجرز کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایک سیاسی تنظیم کی جانب سے متواتر لگائے جانیوالے الزامات حقائق کے منافی ہیں، جرائم پیشہ افراد کیخلاف بلاتفریق آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں، الزامات کا مقصد قومی سلامتی کیلئے جاری کراچی آپریشن کو نقصان پہنچانا ہے، جاری کئے گئے اپنے بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کوئی بھی لبادہ اوڑھ لیں وہ رینجرز کا ہدف ہیں۔ گرفتار کئے گئے افراد جرائم میں ملوث ہیں، صرف جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کیلئے ہی بلاتفریق کارروائی کرتے ہیں، رینجرز ہر مجرم کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ رینجرز اہلکار اپنے آپریشنز کسی تفریق رنگ ونسل، لسانیت اور فرقہ واریت کیخلاف اور تامل کے بغیر جاری رکھے ہوئے ہے۔ گذشتہ چند روز میںگرفتار کئے گئے افراد گھنائونے جرائم میں ملوث ہیں، جن میں ٹارگٹ کلنگ نمایاں ہے۔ قاتلوں اور بھتہ خوروں کیلئے ہمدردانہ سوچ رکھنے والے گروہ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ رینجرز مجرموں کوکیفرکردار تک پہنچانے کیلئے کردار اداکرتی رہے گی۔ ساتھ عوام الناس سے درخواست کی جاتی ہے کہ فرقہ وارانہ دہشتگردوں کے بارے میں معلومات رینجرز ہیلپ لائن 1101 پر دیں۔
تیس سال قبل کراچی روشنیوں کا شہر اور امن و آشتی کا گہوارہ تھا‘ اس شہر نے ہمیشہ لاوارثوں کو تحفظ اور بیروزگاروں کو روزگار دیا۔ رنگ و روشنیوں سے بقعہ نور بنے اس شہر کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی کہ یہ فسادات کی زد میں آگیا جس نے اسکی روشنیاں چھین لیں‘ پرامن شہر میں انصاف پر ظلم غالب آگیا‘ فسادات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اب تک تھم نہیں رہا۔ فساد کی آغوش سے خیر تو برآمد ہونے سے رہا‘ بھتہ خور‘ ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان جیسے قبیح جرائم نے جنم لیا۔ معیشت انحطاط پذیر ہوئی‘ امن خواب بن گیا‘ ہزاروں لوگ قتل ہوئے‘ بوری بند لاشوں کا ملنا معمول ٹھہرا۔ فسادات کا سلسلہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے دوران شروع ہوا جس کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی گئی اور کراچی بدامنی کے شعلوں کی نذر ہوتا چلا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد جمہوری دور کا سلسلہ شروع ہوا۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف دو دو مرتبہ اقتدار میں آئے‘ دونوں نے ان فسادات پر سیاسی مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کی۔ اگرچہ دونوں کے ادوار میں ایک ایک بار کراچی میں بے رحم قسم کا اپریشن ہوا جس سے امن بحال ضرور ہوا مگر یہ دائمی ثابت نہ ہو سکا۔ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہ دیا گیا اس لئے کراچی کا امن بحال کرنے کی ایک حکومت کی کوشش کو آنیوالی حکومت نے سبوتاژ کرکے رکھ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اپریشن کرنیوالے اہلکاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کردیا گیا اور کراچی پھر سے پرامن شہریوں کیلئے جہنم زار بن کے رہ گیا۔
2008ء کے انتخابات کے بعد سندھ میں پیپلزپارٹی‘ متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی نے حکومت بنائی۔ کراچی میں تینوں جماعتیں آپس میں متحارب تھیں‘ وہ ایک دوسرے کی ساتھی اور حمایتی بنیں تو کراچی میں امن کی بحالی کی امید پیدا ہوئی لیکن یہ امید بھی نقشِ برآب ثابت ہوئی۔ ایک موقع پر تینوں پارٹیوں کو حکومتی اتحادی ہوتے ہوئے بھی دست و گریباں دیکھا گیا۔ سپریم کورٹ کو کراچی کے مظلوم عوام پر رحم آیا‘ جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی میں عدالت لگالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی پارٹی کے جنگجو ونگز ہیں‘ان کا خاتمہ کیا جائے۔ مگر سپریم کورٹ کے احکامات اور ہدایات کا حشر بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد جیسا ہوا۔ ان احکامات پر حکومت نے عمل نہ کیا۔
کراچی میں کبھی فسادات سیاسی اجارہ داری کیلئے ہوا کرتے تھے‘ اب ان میں فرقہ ورانہ اور مذہبی دہشت گرد ی کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے۔ ان دہشت گردوں نے ہر طاقتور سیاسی گروہ کو آگے لگالیا ہے۔ کراچی میں بھتہ کلچر کو بلندیوں تک پہنچانے والوں کو دہشت گردوں کی طرف سے بھتے کی پرچیاں مل رہی ہیں۔ ان دہشت گردوں کی شمالی وزیرستان میں اپریشن ضرب عضب سے بھی قبل کراچی میں آمد شروع ہوگئی تھی۔ انہوں نے کراچی میں مضبوط پناہ گاہیں بنالیں۔ افغان مہاجرین تو پہلے ہی لاکھوں کی تعداد میں یہاں موجود تھے‘ انکے بھیس میں دہشت گردوں کی پہچان بھی ممکن نہ رہی۔ یہ دہشت گرد کراچی میں بڑی وارداتیں کرچکے ہیں۔ نیول مہران ایئربیس کو نشانہ بنایا گیا‘ کراچی ایئرپورٹ میں گھس کر قتل و غارت کی اور دفاعی تنصیبات کو نقصان پہنچایا۔ اپریشن ضرب عضب کے بعد شمالی وزیرستان سے فرار ہونیوالوں میں سے بھی کئی نے کراچی کا رخ کیا۔ کراچی کے حالات پر قابو پانا اتنا مشکل کبھی نہ تھا‘ جتنا اب ہے۔ پہلے صرف جرائم پیشہ افراد کی سیاسی پشت پناہی ہوتی تھی جن سے ایجنسیاں آگاہ ہیں مگر سیاسی مصلحتوں کے تحت بڑا قدم اٹھانے سے قاصر رہی ہیں۔ اب کراچی کے حالات میں پیچیدگیاں درآئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد کراچی کے امن کی بحالی کی کوششوں کا آغاز کیا۔ ستمبر 2013ء میں وزیراعظم نوازشریف اپنی ٹیم کے ساتھ کراچی گئے‘ تمام سٹیک ہولڈرز اور سیاسی و مذہبی قائدین کو یکجا کرکے اپریشن کا لائحہ عمل تیار کیا جس کی ہر طبقے‘ حلقے اور سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے حمایت کی مگر اپریشن میں پھر سیاسی مصلحتیں آڑے آنے لگیں‘ جس پارٹی کے شدت پسند پکڑے گئے‘ اس نے جانبداری کا الزام دھر دیا۔ پی پی پی اور متحدہ قومی موومنٹ اتحاد کرتی ہیں تو قدرے خاموشی رہتی ہے۔ اختلافات پر الگ ہوتی ہیں تو ایک دوسرے پر کراچی میں بدامنی کا الزام لگاتی رہتی ہیں۔
ستمبر 2013ء میں کراچی کے امن کی بحالی کیلئے رینجرز کو اپریشن کی ذمہ داری سونپی گئی۔ پولیس کو اسکی معاونت کیلئے کہا گیا۔ رینجرز کے کام میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی جس پر سندھ حکومت کاربند نہ رہ سکی۔ پولیس افسروں کو سیاسی بنیادوں پر ہٹایا جاتا رہا جس سے اپریشن کے خاطرخواہ نتائج کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ اپریشن ضرب عضب کا آغاز آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مرضی و منشاء سے ہوا۔ حکومت نے اس کو Own کیا۔ جنرل راحیل شریف اپریشن کی کامیابی کیلئے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ فاٹا سے دہشت گرد فرار ہو کر کراچی میں چھپ گئے‘ فوج ان کا قلع قمع کرنے کیلئے سرگرم ہے۔ جنرل راحیل کراچی میں دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے تو کمٹڈ تھے ہی انہوں نے کراچی کا امن بحال کرنے کیلئے بھی اسی عزم کا اظہار کیا۔ گزشتہ دنوں آرمی چیف اور وزیراعظم نوازشریف کراچی گئے‘ جنرل راحیل نے پولیس کو غیرسیاسی بنانے پر زور دیا۔ اس پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی سے درجنوں دہشت گرد رینجرز اور پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے اور گرفتار بھی کرلئے گئے۔
جسٹس افتخار محمد چودھری نے سیاسی جماعتوں میں متشدد گروہوں کی نشاندہی کی تھی‘ ان گروہوں کے لوگ بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ان پر ہاتھ پڑتا ہے تو انکے پشت پناہ واویلا کرنے لگتے ہیں۔ خود کو مظلوم قرار دیتے ہیں۔ رینجرز کی طرف سے کسی گروہ اور گروپ سے رتی برابر رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ شدت پسند اور کالعدم تنظیمیں بھی اپریشن پر بلبلا رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ نشانہ صحیح جگہ پر لگ رہا ہے۔ اپریشن کرنیوالے اداروں کی طرف سے غیرجانبداری کی مکمل کوشش ہونی چاہیے۔ مگر کسی صورت کمپرومائز کا شائبہ تک بھی نہ رہے۔ اپریشن پر دبائو قبول کرکے کراچی کو ظالم اور بے رحم لوگوں کے رحم و کرم پر ہرگز نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اب کراچی کے امن کی بحالی اور روشنیوں کے لوٹنے کی امید پیدا ہوئی ہے‘ اسے متعلقہ ادارے یقین میں بدلنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے‘ انکی طرف سے یہی تعاون کافی رہے گا کہ وہ جاری کردہ نمبر پر دہشت گردوں کے بارے میں معلومات فراہم کرکے اپنا فرض ادا کریں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024