وزیر اعظم نواز شریف رواں سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت اور خطاب کرینگے۔ اس موقع پر وہ دوست ممالک سمیت عالمی سربراہوں سے ملاقاتوں کے دوران انہیں پاکستان میں بھارتی مداخلت سے آگاہ کرینگے۔
بھارت کا پاکستان کیلئے معاندانہ اور مخاصمانہ رویہ کبھی پوشیدہ نہیں رہا۔ پاکستان چین راہداری منصوبے کو لے کر تو بھارت کے رویے میں اشتعال اور جارحیت در آئی ہے۔ اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہے۔ پاکستان کو دھمکیوں کا سلسلہ شروع کیا اور غضنباک ہوتے ہوئے پاکستان میں دہشتگردی کا بھی اعتراف کر لیا۔ اسکے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کو دہشتگردی کی دھمکی دی۔ اسکی وزارت خارجہ نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اپنا اٹوٹ قرار دے دیا‘ یہ بھی پاکستان کو دھمکی تھی۔ مودی نے پاکستان توڑنے کیلئے بھارت اور خود اپنے کردار کا اعتراف کیا۔ ان واقعات پر پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آنا چاہئے تھا مگر حکومت کے رویے سے پاکستانیوں کو مایوسی ہوئی۔ گزشتہ دنوں بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت پاکستان میں اپنے مقاصد کیلئے متحدہ کو رقوم دیتا اور اسکے کارکنوں کی تربیت کرتا ہے۔ اس پر بھی حکمرانوں نے بیان بازی پر اکتفا کیا‘ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کیلئے ابھی تک صلاح مشورے جاری ہیں۔ حالانکہ پاکستان کو فوری طور پر معاملہ عالمی سطح پر اٹھا کر بھارت کیخلاف اقوام متحدہ سے پابندیاں لگوانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ عالمی برادری کی حمایت کیلئے وزیراعظم شٹل ڈپلومیسی اختیار کرتے جبکہ وہ دو ماہ بعد اقوام متحدہ میں وہاں آئے ہوئے سربراہان مملکت کو بھارتی مداخلت سے محض آگاہ کرینگے۔ یہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے اس میں مہینوں کی تاخیر کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024