زرداری کا نوازشریف پر انتقامی سیاست کا الزام اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا عندیہ
سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے وزیراعظم نوازشریف کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوازشریف نے ماضی سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔ انہوں نے 90ء کی دہائی کی سیاست کا پھر آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ نوازشریف حکومت اپنے قدرتی ساتھی طالبان کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے قائدین کیخلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ روز لندن سے جاری کئے گئے اپنے بیان میں آصف علی زرداری نے کہا کہ نواز حکومت کا انتقامی سیاست کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اسکے سنگین اور بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔ انکے بقول حکومت کی جانب سے کئے جانیوالے اقدامات واضح طور پر اشارہ کررہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کیخلاف اپریشن کو متاثر اور کمزور کرنے کیلئے قوم کو تقسیم کر رہی ہے۔ پہلے پیپلزپارٹی پنجاب کے سابق صدر قاسم ضیاء کو گرفتار کیا گیا‘ پھر رخسانہ بنگش کے بیٹے اور اب سابق وفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم امین فہیم کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کئے جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو مفلوج کردیا گیا ہے۔ سندھ میں وفاقی ایجنسیوں کی جانب سے کارروائیاں آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ سارے اقدامات سیاسی انتقام کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام لئے بغیر کہا کہ سب سے پہلے ایک وفاقی وزیر کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے جن کا اعترافی بیان مجسٹریٹ کے پاس موجود ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ شریف برادران کیلئے منی لانڈرنگ میں ملوث تھے۔ انکے بقول ایک وفاقی وزیر کے احتساب سے پتہ چلے گا کہ مسلم لیگ (ن) والے کتنے پارسا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شریف برادران کا اقتدار میں آنا پیپلزپارٹی کا مرہون منت ہے۔ یہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی اٹھائی تھی۔ نواز حکومت آج بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے بجائے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ انکے بقول سیاست دانوں میں سزا کی معافی کی درخواست دینے کا اعزاز صرف نوازشریف کو حاصل ہے۔
ہماری سیاست کا یہی المیہ ہے کہ سیاست دانوں نے جمہوریت اور عوام کے حقوق کے تحفظ کے بجائے ہمیشہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ایکا کئے رکھا ہے جس کے باعث عوام کا جمہوری نظام سے اعتماد اٹھتا رہا ہے جبکہ ذاتی مفادات پر زد پڑنے سے حکومتی اور اپوزیشن سیاست دانوں میں شروع ہونیوالی محاذآرائی سے ہی طالع آزماء جرنیلوں کو جمہوریت کی بساط الٹانے کا موقع ملتا رہا ہے۔ آصف علی زرداری کے گزشتہ روز کے بیان اور انکی تائید میں جاری کئے گئے پیپلزپارٹی کے دوسرے عہدیداروں اور قائدین اور تحریک انصاف کے عمران خان کے بیانات سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ سیاست دانوں نے ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کے باوجود ان غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ آصف علی زرداری آج میاں نوازشریف کو 90ء کی دہائی والی انتقامی سیاست شروع کرنے کا طعنہ دے رہے ہیں جبکہ اس سے پہلے 80ء کی دہائی کی محاذآرائی کی سیاست میں وہ فریق ہی نہیں تھے۔ اس وقت بھی جب میاں نوازشریف دوسری بار وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئیں تو دونوں کی باہمی سیاسی چپقلش سے سیاسی محاذآرائی انتہاء کو پہنچی‘ نتیجتاً اسٹیبلشمنٹ کو صدر کے صوابدیدی آئینی اختیار کے تحت وزیراعظم کو گھر بھجوانے کا موقع ملا اور پھر 90ء کے انتخابات میں میاں نوازشریف اقتدار میں آگئے چنانچہ انکے دور حکومت میں 80ء کی دہائی والی سیاسی تلخیاں برقرار رہیں اور پیپلزپارٹی کے رہنماء سیف الرحمان کے احتساب بیورو کی کارروائیوں کی زد میں آتے رہے اور ان کارروائیوں کے باعث سیاسی محاذ بھی گرم ہوتا رہا چنانچہ اسٹیبلشمنٹ نے میاں نوازشریف کو بھی چلتا کیا جبکہ 93ء کے انتخابات کے نتیجہ میں بے نظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آئیں تو انکے دور حکومت میں میاں نوازشریف کو سیاسی انتقامی کارروائیوں کے حوالے سے شکوے شکایات لاحق ہوئیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کیخلاف ٹرین مارچ بھی کیا جبکہ سیاست دانوں کی اس باہمی چپقلش کے نتیجہ میں اسٹیبلشمنٹ کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی بساط الٹانے کا بھی موقع مل گیا۔ یہی حشر میاں نوازشریف کے اقتدار کی دوسری ٹرم میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ہوا جس کیلئے سازگار حالات سیاست دانوں کے اپنے پیدا کردہ تھے۔ مشرف دور میں اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی نے جس میں ماضی کی ایک دوسرے سے متحارب جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کی حلیف تھیں‘ بحالی ٔ جمہوریت کی جدوجہد کے دوران میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے مابین چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاق جمہوریت) طے کرایا جس کے تحت ان سیاسی قائدین نے ماضی کی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے باہم طے کیا کہ آئندہ اپنے اقتدار کی خاطر اپنی مخالف حکومت کو الٹوانے کیلئے طالع آزمائوں کو کندھا فراہم نہیں کیا جائیگا۔ اس معاہدے سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوا تھا کہ سیاست دانوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے مگر مشرف کے اقتدار تک باہم ایکا کئے رکھنے والے سیاست دانوں نے ماضی کی غلطیوں سے یوں سبق سیکھا کہ اپنے اپنے دور اقتدار میں ایک دوسرے کی بدعنوانیوں‘ من مانیوں‘ بے ضابطگیوں کو تحفظ دینے کے معاملہ میں ایک دوسرے کے ساتھ ایکا کرلیا اور اسے جمہوریت کو بچانے والی سیاست کا نام دے دیا گیا چنانچہ پیپلزپارٹی کے گزشتہ اقتدار کے دوران میاں نوازشریف نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار خوب نبھایا اور اس مفاداتی ایکے کے نتیجہ میں ہی 18ویں ‘ 19ویں اور 20ویں آئینی ترامیم پیپلزپارٹی کے دور میں متفقہ طور پر منظور ہوئیں جبکہ اب میاں نوازشریف کے اقتدار میں اب تک آصف علی زرداری کی پارلیمانی پیپلزپارٹی 21ویں آئینی ترمیم کی منظوری سمیت فرینڈلی اپوزیشن کا کردار بخوبی نبھاتی رہی ہے۔ اب آصف علی زرداری کے مزاج بگڑے ہوئے نظر آرہے ہیں تو اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ فرینڈلی اپوزیشن اپنے مفادات کے محفوظ رہنے تک ہی برقرار رہ سکتی ہے جبکہ اس مفاداتی سیاست سے عوام عملاً زندہ درگور ہوئے ہیں اور جمہوریت کا مردہ متعفن ہوا ہے۔ مفاداتی سیاست دانوں کی پیدا کردہ یہی وہ فضا تھی جس میں اسٹیبلشمنٹ کو پھر جمہوریت کیخلاف سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملا اور عمران خان اور طاہرالقادری نے اپنی دھرنا سیاست کے ذریعے جمہوریت کی بھد اڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس موقع پر بھی پارلیمانی سیاسی لیڈران جمہوریت کو بچانے کے نام پر باہم متحد ہوئے تھے جس سے اسمبلیوں کے سر سے تو وقتی طور پر خطرے کی تلوار ٹل گئی مگر حکمرانوں کو من مانیاں کرنے اور عوام دشمن پالیسیاں اختیار کرنے کا پھر موقع مل گیا۔ جبکہ گورننس اور امن و امان کے معاملات سے انکی توجہ ہٹی تو دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کھل کھیلنے کا مزید موقع مل گیا جن سے نمٹنے کیلئے بالآخر عسکری قیادتوں کو میدان عمل میں آنا پڑا۔ آج شمالی وزیرستان کے اپریشن ضرب عضب اور کراچی کے ٹارگٹڈ اپریشن کے حوالے سے سیاسی قیادتوں کے مقابلہ میں عسکری قیادتوں کی فعالیت زیادہ اجاگر ہوئی ہے تو عوام نے فطری طور پر اپنے دوسرے مسائل کے حل کیلئے بھی ان سے توقعات وابستہ کرلی ہیں۔ بالخصوص کراچی کے رینجرز اپریشن کے دوران اس روشنیوں کے شہر کو جرائم کی آماجگاہ بنانے میں ماضی کی اور موجودہ حکمران جماعتوں کا کردار بے نقاب ہو رہا ہے اور قتل‘ ڈکیتی‘ بھتہ‘ لینڈ گریبنگ اور دہشت گردی میں ملوث ان جماعتوں کے لوگوں پر ہاتھ پڑ رہا ہے تو اپنے مفادات کو زد میں آتا دیکھ کر پہلے ان جماعتوں کے قائدین اس اپریشن کے درپے ہوئے اور مسلح افواج کے لتے لینے لگے جبکہ اب اسی اپریشن کے دوران میگا کرپشن میں ملوث سابق حکومتی عہدیداروں پر ہاتھ پڑ رہا ہے جس سے بے لاگ احتساب کا تصور پختہ ہو رہا ہے تو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور دوسرے عہدیداروں نے عسکری اداروں سے رخ موڑ کر ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت اپنی تنقید کا رخ حکمران مسلم لیگ (ن) کی جانب کرلیا ہے جس میں بالخصوص شریف برادران کو نشانہ بنانا طے کیا گیا ہے جبکہ مفاداتی سیاست پر مبنی ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے کی جدوجہد کرنے کے داعی عمران خان اب اسی پیپلزپارٹی کے موقف کے ہمنوا نظر آتے ہیں جس کے بارے میں وہ ایک ہی سکے کے دورخ کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے۔ چونکہ انتخابی دھاندلیوں اور الیکشن کمیشن کے ارکان پر استعفے کیلئے دبائو ڈالنے کے معاملہ میں پیپلزپارٹی نے عمران خان کی آواز کے ساتھ آواز ملائی تھی اس لئے اب حکومت پر پیپلزپارٹی کے انتقامی کارروائیوں کے الزامات کی تائید کرنا عمران خان نے ضروری سمجھا ہے جو ایک دوسرے کو سہولت فراہم کرنے والی مفاداتی سیاست کے زمرے میں ہی آتا ہے جس سے سسٹم کی بہتری اور اصلاح کی توقع ہے نہ عوام کو ایسی سیاست سے کوئی فائدہ ہوگا۔
تعمیری اور مثبت سیاست کا تو یہی تقاضا ہے کہ احتساب کے عمل میں قومی دولت لوٹنے والوں پر بلاامتیاز ہاتھ پڑ رہا ہے اور سابقہ اور موجودہ حکومتی بے ضابطگیاں بے نقاب ہو ری ہیں تو احتساب کے اس عمل کا ساتھ دیا جائے اور مفاداتی سیاست کے تابع ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرنیوالی ماضی کی روش ترک کردی جائے۔ یقیناً اس سے ہی جمہوری اور انتخابی نظام کی اصلاح کا راستہ کھلے گا۔ مگر اس موقع پر مفاداتی سیاست کے تابع آصف علی زرداری‘ عمران خان اور دوسرے اپوزیشن قائدین روایتی حکومت مخالف تحریک کیلئے ایکا کرینگے تو اس سے وہ جمہوریت کی بساط پھر الٹانے کی راہ ہی ہموار کرینگے۔ عمران خاں کا تو ممکن ہے یہی ایجنڈا ہو مگر جمہوریت کو بچائے رکھنے کے دعویدار آصف علی زرداری کو ضرور سوچنا چاہیے کہ جمہوریت کے نقصان پر منتج ہونیوالی سیاست سے انہیں کیا فائدہ ہو گا۔ اس موقع پر چاہیے تو یہ کہ بے لاگ احتساب کا عمل منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے تاکہ کرپشن کی ماضی کی داستانوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر موجود گند کی بھی صفائی ہو سکے۔ اگر اس عمل کو رکوانے کی خاطر نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دینگے کی پالیسی اختیار کی جائیگی تو اس سیاست میں پھر ممکن ہے حکومت کی بساط الٹانے کی راہ ہموار ہو جائے مگر آصف علی زرداری خود بھی جمہوریت کا میٹھا پھل کھانے کو ترس جائینگے۔ بہتر یہی ہے کہ سیاسی محاذ آرائی بڑھانے کے بجائے معاملات ابھی سے سمیٹ لئے جائیں جس کیلئے حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت آمادہ بھی نظر آتی ہے۔ بصورت دیگر طالع آزمائی کیلئے تو ایسے ہی مواقع مددگار ہوتے ہیں اور اسکے بعد تو احتساب کا عمل اور بھی تیز ہوگا۔