اوباما مودی ملاقات میں کئی شعبوں میں تعاون پر اتفاق‘ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کا عندیہ
امریکی صدر بارک اوباما سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 24 گھنٹے میںوائٹ ہاﺅس میں دوسری ملاقات کی۔ان میںامریکہ اور بھارت نے دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے ،دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے، بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پھیلاﺅ روکنے ، جوہری ہتھیاروں پر انحصارکم کرنے اور بلاامتیاز تخفیف پر اتفاق کیا۔نریندر مودی کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان سول نیوکلیئر تعاون ضروری ہے۔ بھارت میں سرمایہ کاری کیلئے مواقع پیدا کررہے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدے میں ہر رکاوٹ ہٹانا چاہتے ہیں۔ ملاقات کے بعد جاری ہونیوالے مشترکہ بیان میں امریکی صدر اور بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ دونوں ممالک سکیورٹی کے معاملات میں تعاون کرینگے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مل کر لڑیں گے۔ اسکے علاوہ یہ دونوں ملک شفاف اور ضابطے کی بنیاد والے عالمی نظام کی حمایت کرینگے جس کے تحت بھارت کو نئی عالمی ذمہ داریاں ملیں گی اور جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بہتری بھی شامل ہوگی۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہمارا نظریہ ہے کہ امریکہ اور بھارت 21ویں صدی میں ایک دوسرے کے معتمد ساتھی بنیں گے اور یہ شراکت دنیا کیلئے ایک مثال ہوگی۔ اس موقع پر وائٹ ہاﺅس سے جاری ہونیوالے بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے عالمی رول کیلئے سلامتی کونسل میں اصلاحات کی حمایت کرینگے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور بھارت نے خارجہ تعلقات کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے روس جانے کا اعلان کیا لیکن چند روز بعد وہ امریکہ چلے گئے۔ یہیں سے خارجہ امور میں توازن بگڑ گیا۔ روس اس رنجش کو کئی دہائیوں تک نہ بھلا سکا۔ بھارت نے امریکہ کے مقابلے میں روس کے ساتھ قربت کو ترجیح دی۔ روس نے بھارت کا بھرپور ساتھ دیا حتیٰ کہ پاکستان کیخلاف بھارت کی سازشوں کو پروان چڑھانے میں بھی روس شامل رہا۔ جب روس بکھرا اور امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور کے طور پر عالمی منظرنامے پر نمودار ہوا تو بھارت نے اسکی قربت حاصل کرنے کی کوشش کی جسے امریکہ نے ویلکم کیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بھارت امریکہ کی آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے اور پاکستان جس کا امریکہ کی حمایت کرتے اور اسکی جنگ لڑتے دیوالیہ نکل گیا‘ اسے امریکہ بری طرح نظرانداز کر رہا ہے۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد طالبان حکومت پر حملوں کیلئے امریکہ کی خواہش کے مطابق اسکے ساتھ تعاون کیا۔ اپنے ہوائی اڈے اسکے حوالے کئے‘ کراچی سے چمن اور طورخم تک لاجسٹک سپورٹ کیلئے راستے دیئے۔ اس سے افغان جنگ کے سائے پاکستان پر بھی منڈلانے لگے اور آج تو پاکستان باقاعدہ جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ امریکہ کی حمایت کی قیمت پاکستان کو پانچ ہزار فوجیوں سمیت 55 ہزار پاکستانیوں کی شہادت اور 72 ارب کے انفراسٹرکچر کے نقصان کی صورت میں ادا کرنی پڑی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ امریکہ اپنی جنگ سمیٹ کر خطے سے جا رہا ہے۔ اسکے باوجود امریکہ کے افغانستان سے مفادات ختم نہیں ہوئے۔ افغانستان میں اشرف غنی نے عہدہ صدارت سنبھالتے ہی اس سکیورٹی معاہدے پر دستخط کردیئے جس میں پر دستخط کرنے سے کرزئی نے انکار کر دیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دسمبر 2014ءکے بعد بھی دس ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے۔ افغانستان میں جب تک امریکی اور نیٹو افواج موجود ہیں‘ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت رہے گی۔ دسمبر کے آخر تک جو انخلاءہو رہا ہے‘ وہ بھی پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کا یقیناً امریکہ کو ادراک تو ہوگا لیکن اسے پاکستان کی کوئی پروا نہیں۔ شاید اسکی وجہ پاکستانی حکمرانوں میں ملکی مفادات اور حق کی آواز بلند کرنے میں جرا¿ت کا فقدان ہو۔ خطے میں بھارت ہی پاکستان کا ازلی و ابدی دشمن ہے۔ اسکے جدید اور روایتی اسلحہ کے انبار پاکستان کیخلاف ہیں۔ امریکہ اسے مزید طاقتور بنا رہا ہے۔ اسکے کئی ممالک کے ساتھ سول نیوکلیئر تعاون کے معاہدے ہوئے‘ ان میں امریکہ بھی شامل ہے۔ امریکہ پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا ہے‘ اسے تو پاکستان کو ترجیح دینی چاہیے لیکن وہ الٹا بھارت پر نوازشات کررہا ہے۔ پاکستان کیلئے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے دروازے یکسر بند ہیں۔ اوباما مودی ملاقات میں دہشت گردی کیخلاف مل کر لڑنے پراتفاق ہوا۔ امریکہ اور بھارت کس دہشت گردی کیخلاف مل کر لڑیں گے‘ بھارت تو مقبوضہ کشمیر میں حریت جدوجہد کو دہشت گردی کہتا ہے‘ کیا امریکہ کشمیر میں بھارت کے ساتھ شامل ہو کر آزادی کا مطالبہ کرنیوالوں کیخلاف لڑے گا؟ ملاقات میں بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پھیلاﺅ روکنے ، جوہری ہتھیاروں پر انحصارکم کرنے اور بلاامتیاز تخفیف پر اتفاق کیا گیا۔ اوباما اس اتفاق رائے پر عمل کا کوئی ٹائم فریم بھی دے دیتے۔ بھارت تو اسلحہ جمع کرنے کے خبط میں مبتلا ہے‘ اسکی طرف سے تخفیف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسا اتفاق ظاہر کرکے مودی نے اوباما اور امریکیوں کو بے وقوف بنایا ہے۔ پاکستان کیلئے سب سے زیادہ تکلیف کا باعث امریکہ کی طرف سے بھارت کے عالمی رول کیلئے سلامتی کونسل میں معاملات کی حمایت ہے۔ گویا امریکہ بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دلانے کیلئے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے ادارے سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی تعداد 15 ہے جن میں سے امریکہ ، برطانیہ ،فرانس، روس اور چین مستقل اراکین ہیں۔ مستقل اراکین کو حق تنسیخ حاصل ہے جس کی رو سے سلامتی کونسل میں زیر غور کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے سادہ اکثریت ہونے کے علاوہ ضروری ہے کہ پانچوں مستقل اراکین اس پر متفق ہوں ورنہ اس پر رائے شماری نہیں ہوسکتی۔ غیر مستقل ممبران میں براعظم افریقہ سے 3 ممبر، براعظم لاطینی امریکہ سے 2 ، مغربی یورپ سے 2 ‘مشرقی یورپ سے 1 اورایشیاءسے 2 ممبر لئے جاتے ہیں۔حق تنسیخ نے اس ادارے کے وقار کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ روس نے یہ حق 123 امریکہ 82 ، برطانیہ نے 32 ، فرانس نے 18 اور چین نے قدرے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف 6 مرتبہ استعمال کیا ہے۔ روس اور امریکہ نے اس حق کو نہایت ہی غیر ذمہ داری سے بار بار استعمال کیا ہے۔ انکی اسی غیر ذمہ داری کا نتیجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین آج تک حل طلب ہیں۔ بھارت کو اگر سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دے دی گئی تو یہ پاکستان پر ظلم ہوگا۔ ویسے بھی ایسے ملک کو یہ اہم ترین منصب کیونکر سونپا جا سکتا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل سے انکاری ہے۔ اسکے درجنوں صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں کررہی ہے۔ امریکہ کے چہیتے بھارت کے کسی پڑوسی کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات نہیں‘ مسئلہ کشمیر پر پاکستان پر تین مرتبہ جارحیت کر چکا ہے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے وہ دہشت گردی کرواتا اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرتا ہے۔ اسکی چین کے ساتھ سرحدی تنازعات پر ایک بڑی جنگ ہو چکی ہے۔ بھوٹان‘ نیپال‘ مالدیپ اور سری لنکا جیسے چھوٹے ممالک کے ساتھ اسکے کبھی اچھے تعلقات نہیں رہے۔ سلامتی کونسل کا ممبر بننے سے بھارت کی بدمعاشی میں اضافہ اور خطے کا امن مزید تہہ و بالا ہو جائیگا۔ امریکہ کو حقائق کا ادراک کرنا چاہیے ‘ پاکستان کے دشمن کی اتنی حمایت نہ کرے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی پر مجبور ہو جائے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پاکستان ایسا کر سکتا ہے جس سے امریکہ کیلئے مسائل پیدا ہونگے اور افغانستان میں اسکے فوجیوں کیلئے ایک ایک لمحہ گزارنا عذاب بن جائیگا۔